20 اگست ، 2023
سائنسدانوں نے کورونا وائرس کی ایک ایسی نئی قسم کو دریافت کیا ہے جس میں بہت زیادہ جینیاتی تبدیلیاں ہوئی ہیں۔
اس نئی قسم کو بی اے 2.86 کا نام دیا گیا ہے اور اس کے اسپائیک پروٹین میں اومیکرون بی اے 2 کے مقابلے میں 30 سے زیادہ تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں۔
امریکا کے Fred Hutchinson کینسر سینٹر کی ماہر ڈاکٹر جیسی بلوم نے بتایا کہ بظاہر اس نئی قسم میں اومیکرون کے مقابلے میں بہت زیادہ ارتقائی تبدیلیاں ہوئی ہیں۔
عالمی ادارہ صحت نے 17 اگست کو بی اے 2.86 کو ویرینٹ انڈر مانیٹرنگ کا درجہ دیا تھا۔
اب تک اس نئی قسم کے محض 6 جینوم سیکونس تیار کیے گئے ہیں اور یہ 4 ممالک میں رپورٹ ہوا ہے، مگر ماہرین کو خدشہ ہے کہ اس کے کیسز متعدد ممالک میں موجود ہو سکتے ہیں کیونکہ اب زیادہ تر خطوں میں نئے کیسز کی مانیٹرنگ نہیں کی جا رہی۔
اب تک اسرائیل، ڈنمارک، امریکا اور برطانیہ میں اس کے کیسز سامنے آئے ہیں۔
Statens Serum انسٹیٹیوٹ (ایس ایس آئی) کے محقق مورٹین روسموسین نے بتایا کہ یہ غیر معمولی ہے کہ کورونا وائرس میں اتنی نمایاں تبدیلیاں ہوں اور اس میں 30 میوٹیشنز ہو جائیں گے، ہم نے آخری بار ایسی بڑی تبدیلی اس وقت دیکھی تھی جب 2021 میں اس وائرس کی قسم اومیکرون نمودار ہوئی تھی۔
ایس ایس آئی کے ماہرین کا کہنا تھا کہ ابھی اس نئی قسم کے متعدی ہونے یا سنگین حد تک بیمار کرنے کی صلاحیت کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
یو ایس سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ Prevention کی ڈائریکٹر ڈاکٹر مینڈی کوہن نے کہا کہ اس نئی قسم کی مانیٹرنگ کی جا رہی ہے اور ہم اس وائرس میں آنے والی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس نئی قسم میں ہونے والی تبدیلیاں اس وقت پھیلنے والی اقسام سے مختلف ہیں، مگر ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ اس سے کیسز کی تعداد بڑھ جائے گی یا نہیں۔
دوسری جانب برطانیہ کی ہیلتھ سکیورٹی ایجنسی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ اس نئی قسم کے کیسز جن 4 ممالک کے افراد میں دیکھے گئے، انہوں نے حال ہی میں سفر نہیں کیا تھا۔
بیان میں کہا گیا کہ وائرس کے سیکونسز ایک دوسرے سے بہت ملتے جلتے ہیں جس سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ نئی قسم حال ہی میں ابھری ہے اور تیزی سے پھیل رہی ہے۔
خیال رہے کہ اس سے قبل حالیہ مہینوں میں کورونا کی ای جی 5 نامی قسم زیادہ تیزی سے پھیلنا شروع ہوئی تھی، چین، جنوبی کوریا، جاپان اور امریکا سمیت متعدد ممالک میں اس کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
یہ بنیادی طور پر اومیکرون کی ہی ایک ذیلی قسم ہے۔
ایرس کو سب سے پہلے فروری 2023 میں دریافت کیا گیا تھا اور کچھ ممالک میں اس کے باعث کیسز بڑھنے پر اگست کے شروع میں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے اسے ویرینٹ آف انٹرسٹ قرار دیا۔
عالمی ادارے نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ نئی قسم ممکنہ طور پر تیزی سے پھیل سکتی ہے اور کووڈ کے خلاف مدافعتی نظام کو حاصل تحفظ پر حملہ آور ہو سکتی ہے۔
ایرس کے اسپائیک پروٹین میں تبدیلیاں ہوئی ہیں جس کے باعث یہ وائرس بیماری کے خلاف ویکسینیشن یا بیمار ہونے کے باعث حاصل ہونے والی مدافعت کو توڑنے کے قابل ہوگیا ہے۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ چونکہ یہ نئی قسم تیزی سے پھیل رہی ہے تو بیشتر ممالک میں 20 سے 30 فیصد کیسز اس کے شکار افراد میں رپورٹ ہوئے ہیں اور ممکنہ طور پر اس کے باعث کیسز کی شرح مزید بڑھ سکتی ہے۔