وہ 6 عادات جن کو اپنا کر ڈپریشن کو خود سے دور رکھنا ممکن

یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی / رائٹرز فوٹو
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی / رائٹرز فوٹو

ڈپریشن ایک ایسا مرض ہے جس سے موجودہ عہد میں ہر عمر کے افراد متاثر ہو رہے ہیں۔

ڈپریشن کے شکار افراد کو دماغی اور جسمانی دونوں طرح کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔

مگر اچھی بات یہ ہے کہ ڈپریشن سے بچنا بہت آسان ہے اور چند عام عادات سے ایسا ممکن ہوسکتا ہے۔

یہ بات برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

کیمبرج یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 2 لاکھ 90 ہزار افراد کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی، جن میں سے 13 ہزار ڈپریشن کے شکار تھے۔

تحقیق میں یہ دیکھا گیا تھا کہ کونسے عناصر لوگوں کو ڈپریشن کا شکار بناتے ہیں اور اس بیماری سے بچنا کیسے ممکن ہے۔

تحقیق میں 6 ایسی عادات کو دریافت کیا گیا کہ جن کے ذریعے ڈپریشن سے خود کو بچانا ممکن ہے۔

تحقیق کے مطابق ہر رات 7 سے 9 گھنٹے کی نیند ڈپریشن سے بچانے میں سب سے زیادہ مددگار ثابت ہوتی ہے اور بیماری سے متاثر ہونے کا خطرہ 22 فیصد تک کم ہو جاتا ہے۔

تمباکو نوشی سے گریز کرکے ڈپریشن کے شکار ہونے کا خطرہ 20 فیصد تک کم کیا جا سکتا ہے جبکہ دوستوں اور رشتے داروں سے ملنا جلنا اس بیماری کا خطرہ 18 فیصد تک کم کر دیتا ہے۔

تحقیق میں مزید بتایا گیا کہ جسمانی سرگرمیوں کو عادت بنانے سے ڈپریشن کا خطرہ 14 فیصد تک کم کیا جا سکتا ہے۔

اسی طرح الکحل سے گریز سے یہ خطرہ 11 فیصد تک گھٹ جاتا ہے۔

تحقیق کے مطابق صحت کے لیے اچھی غذا کے استعمال سے اس ذہنی مرض سے متاثر ہونے کا خطرہ 6 فیصد تک کم ہو جاتا ہے۔

محققین نےبتایا کہ صحت مند طرز زندگی کو اپنانے والے افراد میں ڈپریشن سے متاثر ہونے کا امکان دیگر کے مقابلے میں 57 فیصد کم ہوتا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ہم سوچتے ہیں کہ صحت مند طرز زندگی جسمانی صحت کے لیے ضروری ہوتا ہے مگر یہ ذہنی صحت کے لیے بھی اہم ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اچھا طرز زندگی دماغی صحت کے لیے بہترین ثابت ہوتا ہے جبکہ مدافعتی نظام اور میٹابولزم بھی صحت مند ہوتے ہیں۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ ڈپریشن کا شکار بنانے میں جینز اہم کردار ادا کرتے ہیں مگر طرز زندگی کی عادات کا کردار زیادہ اہم ہوتا ہے۔

محققین کے مطابق جینز سے یقیناً ڈپریشن کا خطرہ بڑھتا ہے مگر طرز زندگی کے اثرات زیادہ اہم ہوتے ہیں اور آپ کی عادات جتنی مثبت ہوں گی، ذہنی صحت کو اتنا زیادہ فائدہ ہوگا۔

اس تحقیق کے نتائج جرنل نیچر مینٹل ہیلتھ میں شائع ہوئے۔

مزید خبریں :