Time 20 ستمبر ، 2023
سائنس و ٹیکنالوجی

ایلون مسک کی کمپنی انسانوں کے دماغ میں کمپیوٹر چپ نصب کرنے کیلئے تیار

2020 میں ایلون مسک نیورالنک کی ایک کانفرنس میں سرجیکل روبوٹ کے پاس کھڑے ہیں / اے ایف پی فوٹو
2020 میں ایلون مسک نیورالنک کی ایک کانفرنس میں سرجیکل روبوٹ کے پاس کھڑے ہیں / اے ایف پی فوٹو

ایلون مسک کی کمپنی نیورالنک نے انسانی دماغ میں کمپیوٹر چپ نصب کرنے کے لیے پہلا کلینیکل ٹرائل شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔

کمپنی کی جانب سے بتایا گیا کہ اسے ایک خودمختار ریویو بورڈ کی جانب سے انسانی ٹرائل کے لیے مریضوں کو اکٹھا کرنے کی اجازت مل گئی ہے۔

یہ کمپنی معذوری کے شکار افراد کو اس ٹرائل کا حصہ بنائے گا تاکہ اپنی تجرباتی ڈیوائس کا تجربہ کر سکے جس پر 6 سال سے کام کیا جا رہا ہے۔

گزشتہ سال امریکا کے ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) نے ایلون مسک کی کمپنی کو انسانی دماغ میں کمپیوٹر چپ نصب کرنے کی اجازت دینے سے انکار کیا تھا مگر پھر مئی 2023 میں کلینیکل ٹرائل شروع کی اجازت دے دی تھی۔

نیورالنک کی جانب سے جاری بیان کے مطابق کلینیکل ٹرائل کے لیے ایسے افراد کی خدمات حاصل کی جائیں گی جو ریڑھ کی ہڈی کی انجری یا Amyotrophic Lateral Sclerosis (اے ایل ایس) کے باعث معذور ہو چکے ہیں۔

ان افراد کے دماغ میں سرجری کے ذریعے اس حصے میں چپ نصب کی جائے گی جو جسمانی حرکت کو کنٹرول کرتا ہے، جس سے وہ محض خیالات سے کمپیوٹر کرسر یا کی بورڈ کنٹرول کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔

ابھی یہ تو واضح نہیں کہ کلینیکل ٹرائل میں کتنے افراد کو شامل کیا جائے گا، مگر دسمبر 2022 میں نیورالنک کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ ایک سکے کے حجم کے کمپیوٹر کو انسانی مریضوں کے دماغ میں نصب کیا جائے گا۔

اس کمپنی کی جانب سے اس چپ پر کافی عرصے سے کام کیا جارہا ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ چپ سے معذور افراد پھر حرکت اور بات کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔

اس موقع پر ایلون مسک نے کہا تھا کہ دماغی چپ سے بینائی کو بحال کرنے کا ہدف بھی طے کیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس ڈیوائس کا تجربہ سب سے پہلے 2 افراد پر کرتے ہوئے ان کی بینائی اور مسلز کی حرکت کو بحال کیا جائے گا۔

نیورالنک نے آخری بار 2021 میں اس ڈیوائس کے بارے میں پیشرفت جاری کی تھی جب ایک بندر میں اسے نصب کیا گیا جو اپنے خیالات سے ایک کمپیوٹر گیم کھیلنے کے قابل ہوگیا تھا۔

واضح رہے کہ جانوروں پر نیورالنک کے تجربات کے حوالے امریکی حکومت کی جانب سے پہلے ہی تحقیقات کی جا رہی ہے۔

مزید خبریں :