اسمارٹ فونز کی نیلی روشنی اور قبل از وقت بلوغت کے درمیان تعلق ہے، تحقیق

یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی / فائل فوٹو
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی / فائل فوٹو

اسمارٹ فونز یا ٹیبلیٹ جیسی ڈیوائسز سے خارج ہونے والی نیلی روشنی قبل از وقت بلوغت کا باعث بن سکتی ہے۔

کم از کم چوہوں میں ایسا دیکھنے میں آیا ہے۔

یہ بات ترکیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

غازی یونیورسٹی اور انقرہ بلقان سٹی ہاسپٹل کی اس تحقیق میں پہلی بار ڈیوائسز کی نیلی روشنی اور نر چوہوں میں قبل از وقت بلوغت کے درمیان تعلق کے بارے میں بتایا گیا۔

خیال رہے کہ حالیہ برسوں میں متعدد تحقیقی رپورٹس میں بتایا کہ لڑکوں اور لڑکیوں میں قبل از وقت بلوغت کی شرح بڑھی ہے، خاص طور پر کووڈ 19 کی وبا کے دوران۔

اس نئی تحقیق کے نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ اس کی ایک وجہ نیلی روشنی خارج کرنے والی ڈیوائسز کا زیادہ استعمال بھی ہو سکتا ہے، مگر ابھی حتمی طور پر کچھ کہنا ممکن نہیں۔

محققین نے کہا کہ ہم نے دریافت کیا کہ ڈیوائسز کی نیلی روشنی سے مخصوص ہارمونز کی سطح میں تبدیلی آتی ہے، ابھی ان نتائج کا اطلاق بچوں پر نہیں کیا جاسکتا مگر اسے خطرہ بڑھانے والا عنصر ضرور تصور کیا جانا چاہیے۔

اس تحقیق کے دوران 21 دن کی عمر کے 18 نر چوہوں کو شامل کیا گیا تھا جن کو 3 گروپس میں تقسیم کیا گیا۔

ایک گروپ کو عام روشنی میں رکھا گیا، دوسرے گروپ کو روزانہ 6 گھنٹے تک نیلی روشنی کی زد میں رکھا گیا جبکہ تیسرے کو 12 گھنٹے تک نیلی روشنی میں رکھا گیا۔

محققین نے دریافت کیا کہ نیلی روشنی کی زد میں رہنے والے چوہوں میں قبل از وقت بلوغت کے آثار نمایاں ہوگئے۔

درحقیقت نیلی روشنی کا دورانیہ جتنا زیادہ ہوتا ہے، چوہوں میں بلوغت کا آغاز اتنی جلد ہوتا ہے۔

تحقیقی ٹیم کی ایک پرانی تحقیق میں مادہ چوہوں کو شامل کیا گیا تھا اور اس کے نتائج بھی اسی طرح کے تھے۔

محققین کا کہنا تھا کہ پہلی بار ہم نے نر چوہوں میں نیلی روشنی اور قبل از وقت بلوغت کے درمیان تعلق کو دریافت کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ نتائج مادہ چوہوں پر کیے جانے والے تحقیقی کام سے مطابقت رکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ چوہوں پر ہونے والی تحقیق تھی اور اس کے نتائج کا انسانوں پر براہ راست اطلاق نہیں ہو سکتا ہے، مگر ہم نے اس حوالے سے مزید تحقیق کے لیے بنیاد فراہم کردی ہے کیونکہ موجودہ عہد میں ڈیوائسز کا استعمال بڑھ رہا ہے۔

اس تحقیق کے نتائج جرنل Frontiers in Endocrinology میں شائع ہوئے۔

مزید خبریں :