کیا رات کو اکثر نیند نہیں آتی؟ تو یہ اس جان لیوا مرض کی نشانی ہو سکتی ہے

ایک طبی تحقیق میں اس بارے میں بتایا گیا / فائل فوٹو
ایک طبی تحقیق میں اس بارے میں بتایا گیا / فائل فوٹو

کیا آپ کو اکثر رات کو سونے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے یا بے خوابی کے شکار رہتے ہیں؟

تو یہ ہائی بلڈ پریشر سے متاثر ہونے کی نشانی ہو سکتی ہے۔

یہ انتباہ امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آیا۔

بریگھم اینڈ ویمنز ہاسپٹل کی اس تحقیق میں 25 سے 42 سال کی عمر کی 66 ہزار سے زائد خواتین کی صحت کا جائزہ 16 سال تک لیا گیا۔

تحقیق کے دوران بلڈ پریشر کا خطرہ بڑھانے والے عناصر اور طرز زندگی کو مدنظر رکھا گیا اور نتائج سے معلوم ہوا کہ ناکافی نیند یا بے خوابی اور فشار خون کی تشخیص کے درمیان تعلق موجود ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ ہر رات 5 گھنٹے سے کم سونے والے افراد میں ہائی بلڈ پریشر سے متاثر ہونے کا خطرہ 10 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔

اسی طرح 7 گھنٹے سے کم نیند کے عادی افراد میں اس خاموش قاتل مرض کا خطرہ 7 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

البتہ زیادہ دیر تک سونے والے افراد میں ہائی بلڈ پریشر سے متاثر ہونے کا خطرہ نہیں بڑھتا۔

تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ جن افراد کو سونے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، ان میں ہائی بلڈ پریشر کی تشخیص کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں 14 سے 28 فیصد تک زیادہ ہوتا ہے۔

تحقیق میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ نیند کی کمی یا بے خوابی کے باعث فشار خون کا خطرہ کیوں بڑھتا ہے۔

محققین نے بتایا کہ اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے مگر ہمارے خیال میں نیند کے مسائل سے جسم میں سوڈیم کی مقدار بڑھتی ہے، شریانیں اکڑ جاتی ہیں اور دھڑکن کی رفتار تیز ہو جاتی ہیں، یہ تینوں عناصر ممکنہ طور پر فشار خون کا باعث بنتے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ سونے جاگنے کے معمولات متاثر ہونے سے خون کی روانی بھی متاثر ہوتی ہے جس سے بھی بلڈ پریشر کا خطرہ بڑھتا ہے۔

تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ بے خوابی کے شکار افراد کا جسمانی وزن بھی بڑھتا ہے، جسمانی سرگرمیاں کم ہو جاتی ہیں، ناقص غذا استعمال کرتے ہیں اور تمباکو نوشی کرتے ہیں۔

یہ سب عناصر بھی ہائی بلڈ پریشر سے منسلک ہوتے ہیں۔

محققین کے مطابق نیند کے مسائل سے بلڈ پریشر کا خطرہ بڑھتا ہے یا نہیں، اس سے قطع نظر یہ واضح ہے کہ اچھی نیند صحت کے لیے بہت اہم ہوتی ہے اور اس کے مسائل متعدد امراض کا شکار بنا سکتی ہے۔

اس تحقیق کے نتائج جرنل Hypertension میں شائع ہوئے۔

مزید خبریں :