نزلہ زکام کی علامات کا سامنا کئی ہفتوں تک ہو سکتا ہے، تحقیق

یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی / فائل فوٹو
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی / فائل فوٹو

ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ عام موسمی نزلہ زکام کا دورانیہ ایک ہفتے تک ہوتا ہے جس کے بعد مریض ٹھیک ہو جاتا ہے۔

مگر اب ایک نئی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ نزلہ زکام (جسے طبی زبان میں کولڈ کہا جاتا ہے) کی علامات کئی ہفتوں تک سامنے آسکتی ہیں۔

جرنل لانسیٹ میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ لانگ کووڈ کی طرح لانگ کولڈ بھی موجود ہے۔

خیال رہے کہ لانگ کووڈ سے مراد کووڈ کی علامات کا دورانیہ کئی ہفتوں یا مہینوں تک برقرار رہنا ہے۔

اس نئی تحقیق میں بتایا گیا کہ نظام تنفس کے امراض جیسے عام نزلہ زکام کی علامات بھی ابتدائی بیماری کے بعد کئی ہفتوں تک برقرار رہ سکتی ہیں۔

برطانیہ کی کوئین میری یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 10 ہزار سے زائد افراد کو شامل کرکے یہ دیکھا گیا تھا کہ نظام تنفس کے امراض سے طویل المعیاد بنیادوں پر صحت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ عام نزلہ زکام سے بھی صحت پر طویل المعیاد بنیادوں پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں جن کے بارے اب تک علم نہیں تھا۔

البتہ تحقیق میں یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ لانگ کولڈ کا دورانیہ کتنا طویل ہو سکتا ہے۔

محققین نے بتایا کہ ابتدائی بیماری کے بعد بھی مختلف علامات کا سامنا ہونا غیرمعمولی نہیں بلکہ ایسا متعدد امراض کے شکار افراد کے ساتھ ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ابتدائی بیماری کے بعد متعدد مریضوں کو دائمی تھکاوٹ جیسے عارضے کا سامنا ہوتا ہے، مگر اس طرح کی علامات کی تشیص نہیں ہوتی۔

مریضوں کو جن علامات کا زیادہ سامنا ہوتا ہے ان میں کھانسی، پیٹ درد اور ہیضہ قابل ذکر ہیں۔

محققین کے مطابق ابتدائی بیماری کی شدت طویل المعیاد علامات کے حوالے سے اہم ثابت ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کووڈ 19 اور نظام تنفس کے دیگر امراض کے طویل المعیاد اثرات کے حوالے سے تحقیق جاری ہے کیونکہ اس سے یہ جاننے میں مدد ملے گی کہ آخر کچھ افراد دیگر کے مقابلے میں زیادہ وقت تک بیمار کیوں رہتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس سے متاثرہ افراد کے مناسب علاج کو شناخت کرنے میں بھی مدد ملے گی۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ 19 کے 22 فیصد مریضوں کو طویل المعیاد بنیادوں پر علامات کا سامنا ہوتا ہے جبکہ نظام تنفس کے دیگر امراض جیسے کولڈ، فلو اور نمونیا کے بھی 22 فیصد مریضوں کو طویل المعیاد بنیادوں پر علامات کا سامنا ہوتا ہے۔

مزید خبریں :