آنے والی دہائیوں میں ہر سال فالج سے لگ بھگ ایک کروڑ اموات کا خدشہ

ایک نئی رپورٹ یں یہ انتباہ کیا گیا / فائل فوٹو
ایک نئی رپورٹ یں یہ انتباہ کیا گیا / فائل فوٹو

فالج کو اس وقت دنیا میں اموات کی بڑی وجہ تصور کیا جاتا ہے اور 2050 تک اس کے باعث ہر سال لگ بھگ ایک کروڑ ہلاکتیں ہونے کا امکان ہے۔

یہ انتباہ ایک نئی رپورٹ میں سامنے آیا۔

جرنل لانسیٹ نیورولوجی کمیشن میں شائع رپورٹ میں بتایا گیا کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو 2050 تک فالج سے اموات کی شرح میں 50 فیصد اضافہ ہو سکتا ہے۔

اس کے نتیجے میں ہر سال 97 لاکھ افراد ہلاک ہوں گے جبکہ 2300 ارب ڈالرز کا سالانہ خرچہ ہوگا۔

اس رپورٹ میں یہ تجزیہ کیا گیا تھا کہ 2020 سے 2050 کے درمیان فالج کے باعث صحت اور معیشت پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

حالیہ سروے رپورٹس، گائیڈلائنز اور دنیا بھر کے ماہرین سے انٹرویوز کے بعد دریافت ہوا کہ گزشتہ 30 برسوں کے دوران فالج کے باعث ہلاکتوں یا معذور ہونے والے افراد کی تعداد میں دوگنا اضافہ ہوا ہے۔

رپورٹ مرتب کرنے والے ماہرین نے بتایا کہ فالج سے دنیا بھر میں بہت زیادہ اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور اس کے باعث ہر سال لاکھوں اموات ہوتی ہیں جبکہ متعدد افراد معذور ہو جاتے ہیں اور معیشت کو بھی اربوں ڈالرز کا نقصان ہوتا ہے۔

2020 میں دنیا بھر میں فالج سے 66 لاکھ افراد ہلاک ہوئے تھے مگر یہ تعداد 2050 تک 97 لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔

ماہرین نے بتایا کہ غریب اور متوسط ممالک میں فالج سے اموات کی تعداد 57 لاکھ (2020 کے اعداد و شمار) سے بڑھ کر 2050 میں 88 لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔

اس کے مقابلے میں ترقی یافتہ ممالک میں اس عرصے میں کوئی خاص تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئے گی۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2020 میں دنیا میں فالج سے سب سے زیادہ 41 لاکھ اموات ایشیا میں ہوئیں اور 2050 تک اس تعداد میں 69 فیصد اضافے کا امکان ہے۔

ماہرین نے بتایا کہ ہم نے فالج سے اموات کی وجوہات کا جائزہ بھی لیا۔

انہوں نے کہا کہ زیادہ متاثرہ خطوں میں فالج کی روک تھام کی کوششیں نہ ہونا اور طبی سہولیات کی کمی کے باعث اموات زیادہ ہوتی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو جنوب مشرقی ایشیا، مشرقی ایشیا اور اوشیانا میں فالج سے لگ بھگ 20 لاکھ اضافی اموات ہوسکتی ہیں۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ آئندہ 3 دہائیوں میں جوان افراد میں فالج سے اموات کی شرح میں اضافہ ہو سکتا ہے کیونکہ ذیابیطس اور موٹاپا عام ہو رہے ہیں۔

مزید خبریں :