Time 23 اکتوبر ، 2023
صحت و سائنس

7 دن تک روزانہ کیلے کھانے سے ایک ڈاکٹر کو کن اثرات کا سامنا ہوا؟

کیلا دنیا میں سب سے زیادہ کھائے جانے والے پھلوں میں سے ایک ہے / فائل فوٹو
کیلا دنیا میں سب سے زیادہ کھائے جانے والے پھلوں میں سے ایک ہے / فائل فوٹو

کیلا دنیا میں سب سے زیادہ کھائے جانے والے پھلوں میں سے ایک ہے اور لگ بھگ ہر موسم میں آسانی سے دستیاب ہوتا ہے۔

اس پھل میں فائبر، اینٹی آکسائیڈنٹس اور دیگر متعدد غذائی اجزا موجود ہوتے ہیں۔

ایک میڈیم سائز کیلے سے پوٹاشیم، وٹامن بی 6، وٹامن سی، میگنیشم، کاپر، فائبر، Manganese اور نباتاتی مرکبات جسم کا حصہ بنتے ہیں۔

امریکا کے کلیو لینڈ کلینک سے تعلق رکھنے والی ایک ڈاکٹر پیٹریسیا واراکالو نے ایک ہفتے تک روزانہ کیلے کھانا کر جائزہ لیا کہ روزانہ اسے کھانے سے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

انہوں نے ایک ہفتے تک کیلوں کو مختلف انداز سے غذا کا حصہ بنایا۔

ایک ہفتے تک کیلے کھانے سے مرتب ہونے والے اثرات درج ذیل ہیں۔

نظام ہاضمہ بہتر ہوگیا

ڈاکٹر پیٹریسیا نے بتایا کہ کیلے کھانے سے آنتوں کے افعال بہتر ہوگئے جس سے پیٹ پھولنے اور قبض جیسے مسائل کا تجربہ کم ہوگیا۔

ان کا کہنا تھا کہ کیلوں میں فائبر کی مقدار کافی زیادہ ہوتی ہے جو آنتوں کے افعال بہتر بناتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کیلوں میں موجود فائبر سے معدے سے غذا گزرنے کی رفتار کم ہوتی ہے جس سے قبض سے بچنے میں مدد ملتی ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ فائبر وہ غذائی جز ہے معدے میں موجود صحت کے لیے مفید بیکٹریا کی غذا بنتا ہے جس سے نظام ہاضمہ بہتر ہوتا ہے۔

توانائی میں اضافہ

ڈاکٹر پیٹریسیا کے مطابق کیلے کھانے سے جسمانی توانائی کی سطح میں نمایاں اضافہ ہوتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس پھل میں موجود کاربوہائیڈریٹس اور قدرتی شکر سے جسمانی توانائی میں اضافہ ہوتا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ چینی کے مقابلے میں کیلے کھانے سے جسمانی توانائی میں ہونے والا اضافہ مستحکم ہوتا ہے اور اس میں تیزی سے کمی نہیں آتی۔

مزاج خوشگوار ہوتا ہے

ڈاکٹر پیٹریسیا نے بتایا کہ کیلوں کو روز کھانے سے مزاج پر بھی خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس پھل میں موجود وٹامن بی 6 اور tryptophan سے مزاج پر خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں جبکہ دماغی افعال کو بھی فائدہ ہوتا ہے۔

ہمارا جسم وٹامن بی 6 یا tryptophan کو قدرتی طور پر بناتا نہیں اور ان دونوں کا حصول غذاؤں سے ہی ممکن ہوتا ہے۔

نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔

مزید خبریں :