Time 08 نومبر ، 2023
دنیا

غزہ کے شہری ایک ماہ سے زائد عرصے سے پانی، خوراک اور طبی سہولیات سے محروم

غزہ کے رہائشیوں کے لیے زندہ رہنا بہت مشکل ہو چکا ہے / اے ایف پی فوٹو
غزہ کے رہائشیوں کے لیے زندہ رہنا بہت مشکل ہو چکا ہے / اے ایف پی فوٹو

اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ غزہ میں صحت، نکاسی آب، صاف پانی اور خوراک تک رسائی جیسی بنیادی سہولیات دستیاب نہیں اور مکمل نظام منہدم ہونے کے قریب ہے۔

خیال رہے کہ غزہ پر اسرائیلی جارحیت کا سلسلہ 33 روز سے جاری ہے جس کے دوران اب تک 10 ہزار 569 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جن میں 4324 بچے بھی شامل ہیں۔

اس عرصے میں 26 ہزار 475 فلسطینی زخمی ہوئے ہیں۔

9 اکتوبر کو اسرائیل نے غزہ کی سرحدوں کو مکمل بند کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد خوراک، پانی، ایندھن اور ادویات کی سپلائی مکمل طور پر رک گئی تھی۔

7 اکتوبر سے اب تک غزہ کے 15 لاکھ افراد بے گھر ہوچکے ہیں اور بنیادی اشیا کی عدم دستیابی کے باعث صورتحال ہر گزرتے دن کے ساتھ بدتر ہوتی جا رہی ہے۔

پانی کی شدید قلت

انسانی حقوق کے گروپس برسوں سے غزہ میں پانی کی قلت کے حوالے سے خبردار کرتے آرہے ہیں۔

2021 میں گلوبل انسٹیٹیوٹ فار واٹر، انوائرمنٹ اینڈ ہیلتھ نے کہا تھا کہ غزہ میں دستیاب 97 فیصد پانی پینے کے قابل نہیں۔

مگر اب بجلی کی عدم دستیابی کے باعث پانی کو صاف کرنے والے پلانٹس بھی بند ہوچکے ہیں جس کے باعث صاف پانی تک رسائی لگ بھگ ناممکن ہوگئی ہے۔

4 نومبر کو اسرائیل نے شمالی غزہ میں پانی کے ایک ذخیرے اور پبلک واٹر ٹینک کو تباہ کر دیا تھا جس کے باعث پانی کی قلت بحران کی شکل اختیار کر گئی۔

اس وقت زیادہ تر افراد آلودہ اور کھارا پانی پینے پر مجبور ہیں اور اس کے حصول کے لیے بھی گھنٹوں تک قطاروں میں لگنا پڑتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے 7 نومبر کو ایک بیان میں کہا تھا کہ ہر فرد کو روزانہ 50 سے 100 لیٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے، مگر غزہ میں ہر فرد کو اوسطاً محض 3 لیٹر پانی دستیاب ہے، جو پینے سمیت ہر مقصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

جب کسی فرد کو پانی کی کمی کا سامنا ہوتا ہے تو سب سے پہلے گردوں پر اثرات مرتب ہوتے ہیں اور پھر دل متاثر ہوتا ہے۔

بچوں کے لیے ڈی ہائیڈریشن جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے جبکہ بالغ فرد کو سر چکرانے، دل کی دھڑکن کی رفتار بڑھنے اور دیگر مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔

اگر پانی بالکل دستیاب نہ ہو تو صحت مند فرد کے لیے بھی ایک ہفتے سے زیادہ زندہ رہنا ممکن نہیں ہوتا۔

خوراک بھی دستیاب نہیں

اقوام متحدہ کے ادارے فوڈ اینڈ ایگریکلچرل آرگنائزیشن (ایف اے او) کے مطابق 7 اکتوبر سے پہلے بھی غزہ کی 80 فیصد آبادی کو مناسب مقدار میں خوراک دستیاب نہیں تھی۔

اس وقت لگ بھگ 50 فیصد آبادی کو خوراک کے حصول کے لیے اقوام متحدہ کے فلسطین میں کام کرنے والے ادارے کی امداد پر انحصار کرنا پڑتا تھا۔

7 اکتوبر سے قبل روزانہ اوسطاً 500 امدادی ٹرک غزہ میں داخل ہوتے تھے۔

مگر اب صورتحال بدل چکی ہے اور اقوام متحدہ کے مطابق 21 اکتوبر سے اب تک محض 451 ٹرک غزہ میں داخل ہوئے ہیں، جن میں سے صرف 158 میں خوراک موجود تھی، 102 میں طبی سامان، 44 میں پانی یا صفائی سے متعلق مصنوعات، 32 میں عام اشیا اور 8 میں نیوٹریشن سپلائیز موجود تھیں۔

کسی بھی ٹرک میں ایندھن موجود نہیں تھا کیونکہ اسرائیل اس کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں۔

ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق غزہ میں خوراک کے ذخائر بمشکل 5 دن کے لیے کافی ہوں گے جبکہ زیادہ تر افراد کو خوراک دستیاب نہیں۔

غزہ میں متعدد بیکریاں بند ہوچکی ہیں اور جو ابھی بھی فعال ہیں، وہ عام حالات کے مقابلے میں 6 گنا زیادہ سامان تیار کر رہی ہیں مگر وہاں سے روٹی یا دیگر سامان کے حصول کے لیے رہائشیوں کو گھنٹوں تک قطار میں انتظار کرنا پڑتا ہے۔

ایندھن اور گندم کی قلت کے باعث یہ بیکریاں بھی بند ہونے کے قریب ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کے مطابق کھانے کی کمی سے بچوں کی نشوونما تھم جاتی ہے اور جسمانی وزن میں کمی آتی ہے جس سے متعدد جسمانی اور ذہنی مسائل کا خطرہ بڑھتا ہے۔

حاملہ خواتین کو مناسب غذا تک رسائی حاصل نہ ہو تو اسقاط حمل، قبل از وقت پیدائش یا بچوں میں پیدائشی نقص جیسے خطرات بڑھتے ہیں۔

طبی سہولیات کی کمی

عالمی ادارہ صحت کے مطابق طبی مراکز پر اسرائیلی بمباری سے سب سے زیادہ خواتین اور بچے متاثر ہو رہے ہیں۔

ادویات اور دیگر طبی سامان کی قلت کے باعث حاملہ خواتین کو مشکلات کا سامنا ہے اور اکثر مقامات پر بچوں کی پیدائش کے لیے آپریشن anesthesia کے بغیر کیے جا رہے ہیں۔

اوسطاً روزانہ 180 بچوں کی پیدائش ہو رہی ہے اور طبی سہولیات دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے ماؤں اور نومولود بچوں کی ہلاکتیں بڑھ رہی ہیں۔

اقوام متحدہ کے پناہ گزین مراکز میں نظام تنفس کے امراض، ہیضہ اور چکن پاکس کے کیسز تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔

ڈبلیو ایچ او نے اب تک اسرائیلی بمباری کے باعث بے گھر ہونے والے افراد میں 22 ہزار 500 نظام تنفس کے انفیکشن جبکہ 12 ہزار ہیضہ کے کیسز رپورٹ کیے ہیں۔

سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث ڈاکٹر سرکے کو طبی آلات کی صفائی کے لیے استعمال کر رہے ہیں جبکہ سرجری کے لیے سوئی دھاگے کو استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔

غزہ کے سب سے بڑے شفا اسپتال کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ طبی نظام منہدم ہونے کے قریب ہے اور جراثیموں سے پاک ماحول میں علاج کرنا ممکن نہیں رہا۔

غزہ کا واحد کینسر اسپتال ایندھن دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے بند ہو چکا ہے، شفا اور دیگر بڑے اسپتال بھی بند ہونے کے قریب ہیں۔

مجموعی طور پر 7 اکتوبر سے اب تک غزہ کے 50 فیصد اسپتال جبکہ 62 فیصد طبی مراکز بمباری یا ایندھن ختم ہونے کی وجہ سے بند ہوچکے ہیں۔

مزید خبریں :