جسٹس سردار طارق کیخلاف ریفرنس خارج، جھوٹی شکایت ٹوئٹ کرنے پر وکیل کو نوٹس جاری

فوٹو: فائل
فوٹو: فائل

سپریم جوڈیشل کونسل نے متفقہ طور پر سپریم کورٹ کے سینیئر ترین جج جسٹس سردار طارق مسعود کے خلاف شکایت جھوٹ پر مبنی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دی جبکہ جھوٹی شکایت ٹوئٹ کرنے پر اظہر صدیق ایڈووکیٹ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 7 دن میں جواب داخل کرنے کی ہدایت کی ہے۔

سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس کونسل کے چیئرمین چیف جسٹس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں ہوا۔ اجلاس میں جسٹس اعجاز الاحسن ، جسٹس سید منصور علی شاہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس امیر بھٹی اور بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس نعیم اختر افغان شریک ہوئے ۔ 

اجلاس کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس سردار طارق مسعود کی استدعا پر جوڈیشل کونسل کی کارروائی اور کارروائی میں شکایت کنندہ مسز آمنہ ملک کے بیان حلفی ان سے کیے جانے والے سوالات اور جسٹس سردار طارق مسعود کی جانب سے پیش کیے گئے دستاویزی شواہد کو بھی رائے کے ساتھ پبلک کرنے کی ہدایت کی۔

سپریم جوڈیشل کونسل کی جاری کی گئی رائے میں کہا گیا ہے کہ شکایت کنندہ مسز آمنہ ملک کا بیان حلفی ریکارڈ کیا گیا اور ان سے سوال کیے گئے تو انہوں نے تسلیم کیا کہ فاضل جج کے خلاف شکایت نہیں بنتی تھی رائے کے مطابق جسٹس سردار طارق مسعود کو بھی نوٹس جاری کیا گیا تھا کہ وہ دستاویزی شواہد کے ساتھ پیش ہوں۔

جسٹس سردار طارق مسعود نے کونسل سے استدعا کی کہ جب کہ شکایت کنندہ نے شکایت کو جھوٹی شکایت تسلیم کر لیا ہے تو شکایت کنندہ اور اس جھوٹی شکایت کو ٹوئٹ کر کے انہیں بدنام کرنے کا اقدام کرنے والے اظہر صدیق کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے۔

جسٹس سردار طارق مسعود نے استدعا کی کہ کونسل کی کارروائی اور تمام دستاویزی ثبوت عوام کے سامنے رکھے جائیں۔ کونسل نے اپنی رائے دیتے ہوئے قرار دیا کہ جسٹس سردار طارق مسعود کے خلاف شکایت متفقہ طور پر مسترد کی جاتی ہے  اور جھوٹی شکایت دائر کرنے پر شکایت کنندہ کے خلاف کیا کارروائی کی جائے اس معاملے پر بعد میں غور کیا جائے گا۔

سپریم کورٹ رولز اور جسٹس طارق مسعود کی استدعا کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس طارق مسعود کی بریت کا حکم نامہ پبلک کرنے کا حکم دیا جبکہ اظہر صدیق کو 7 روز میں جواب داخل کرنے کی ہدایت کی کہ آیا انہوں نے جھوٹی شکایت ٹوئٹ کی یا نہیں اگر ایسا ہے تو کیوں نہ ان کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے وہ اس ضمن میں 7 روز میں وضاحت پیش کریں۔ 

مزید خبریں :