بلاگ
Time 30 مارچ ، 2024

جو جیتا وہی شہبازہے!

سابق وزیراعظم نوازشریف کی پانامہ کیس میں نااہلی کے بعد جب اقتدارکے لیے نئی بھرتی کا عمل شروع ہوا تو سب سے زیادہ ریٹنگ عمران خان کی تھی جودھرنوں کے بعد سے بھرتی والوں کی آنکھ کا تارا بن چکے تھے اور خود کواب ملک کا نیا وزیراعظم دیکھ رہے تھے۔

 مگرایسا بلکل بھی نہیں تھا، عمران خان کے ذریعے سے نوازشریف کواقتدارسے نکالنے کے بعد بھرتی پہ متعین افراد نواز شریف پر پوری طرح اعتبار کرنے کے موڈ میں نہیں تھے، یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ان افراد کے درمیان نئے وزیراعظم کی بھرتی پر کچھ اختلاف تھا، کچھ پرانے دوست شہبازشریف کے حق میں تھے اور کچھ نئے دوست عمران خان کے حق میں تھے۔

معروف صحافی اور تجزیہ کار حامد میربھی اس بات کا انکشاف کر چکے ہیں کہ 2018 کے انتخابات سے پہلے اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے شہباز شریف کو آفر آئی تھی کہ اگر وہ نوازشریف کو چھوڑ کران سے ہاتھ ملاتے ہیں یا پھرن لیگ میں سے ن کو مائنس کرتے ہیں تو اقتدار کا ہما ان کے سر بیٹھ سکتا ہے مگر شہبازشریف کو یہ ڈیل پسند نہیں آئی اور وہ ایک اچھے کاروباری ثابت ہوئے۔ 

دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ بلاول بھٹوزرداری کو بھی وزیراعظم بنانے کو تیار تھی اگر وہ پیپلزپارٹی سے زرداری فیکٹرکو مائنس کرنے پر تیار ہو جاتے۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ آخرتک عمران خان کے بارے میں واضح نہیں تھی اور ان پربھروسہ کرنے میں اپنے خدشات کا اظہار کر رہی تھی، مگرکئی اور سے مناسب امیدوار نہ ملنے کی صورت میں ”مرتا کیا نہ کرتا“والی ضرب المثل پر عمل کرتے ہوئے عمران خان کو ہی نیا وزیراعظم بھرتی کا خطرہ مول لینے کی ضرورت پیش آئی۔ یہاں ایک اور دلچسپ بات کو دیکھنے کو آئی ہے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ سے نئے، نابلد اورنابالغ افراد کوبطوروزیراعظم بنانے میں سکون محسوس کرتی ہے کیوں کہ ان کو اچھے اورپرسکون طریقے سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

شہباز شریف صاحب ایک عرصہ دراز سے اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارا ہیں، ان کو ہمیشہ سے نواز شریف کے متبادل کے طور پر تیار کیا جاتا رہا ہے۔ پرویز مشرف کے دور میں بھی اس بات کی بہت چہ مہ گوئیاں تھی کہ مائنس نواز شریف کر کے شہباز شریف صاحب کو آگے لایا جائے۔ اس دور میں اس بات کے چرچے بھی تھے کہ شہباز شریف بیک ڈوررابطوں کے زریعے سے پرویز مشرف کے ساتھ بھی بات چیت کر رہے تھے، اسی دورمیں بیگم کلثوم نواز کی طرف سے منسوب ایک بیان سامنے آیا تھا کہ شہبازشریف جو مشورے نواز شریف کو دے رہے ہیں وہ مشورے اپنے دوست پرویزمشرف کو دیں۔ یہ خیال کیا جاسکتا ہے کہ شہباز شریف اس ڈیل پر نواز شریف کو نہ منا سکے مگر انہوں نے خود اپنے بل بوتے پر یہ خطرہ کبھی نہیں لیا کیوں کہ ان کو ایک اچھا کاروباری ہونے کی وجہ سے پتہ تھا کہ ووٹ بینک اور مقبولیے نوازشریف کی ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ وزیراعظم بننے کے چکر میں پنجاب کی وزارت اعلیٰ سے بھی ہاتھ نہ دھو بیٹھیں۔

پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ عمران خان اور ان کی حکومت سے بہت جلدی مایوس ہونے لگ گئی تھی اورعوامی رائے بھی تحریک انصاف کے خلاف جانے لگی تھی، اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ اسٹیبلشمنٹ سمجھتی تھی کہ یہ حکومت عمران خان اور تحریک انصاف کی نہیں بلکہ ان کی ہے اور وہ جب چاہیں اس کو ختم کر سکتے ہیں اور پھر آخر میں ہوا بھی وہی۔

 اسی اثنا میں نئے وزیراعظم کی بھرتی کے لیے کسی موزوں امیدوارکی تلاش کا عمل شروع ہو چکا تھا۔ راقم صرف ایک موقعے پر عمران خان کی سیاسی بصیرت پر داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا، عمران خان کو اس بات کا بخوبی علم تھا کہ اگر ان کا کوئی نعم البدل ہوا تو وہ شہباز شریف ہوگا اسی لیے تحریک انصاف کے سارے دور میں شہبازشریف مختلف کیسزمیں نیب کی تحویل میں رہے۔ یہاں پر یہ دلچسپ صورتحال ہو سکتی ہے کہ ہم کریڈٹ عمران خان کو دے رہے ہیں جبکہ دوسری طرف بھرتی والے افراد شہباز شریف کو نیب کی تحویل میں رکھ کر ان کی ممکنہ بھرتی کی تیاری نہ کروا رہے ہوں۔

اپریل 2022 کی تحریک عدم اعتماد کے بعد اسٹیبلشمنٹ کی ہر آنکھ کا تارا شہباز شریف ہی تھے۔ شہباز شریف کی زندگی میں وہ لمحہ آ گیا جس کا ان کوعشروں سے انتظار تھا اور اس بار تو ماحول بھی بنا بنایا تھا، نواز شریف ملک سے باہر تھے، عمران خان 'دل سے اتر چکے تھے، پیپلزپارٹی اورجے یو آئی جیسی اپوزیشن کی تقریباً ساری جماعتوں کی حمایت بھی حاصل تھی جس کی وجہ سے شہباز شریف کا وزیراعظم بننا ناگزیر ہو چکا تھا۔

شہباز شریف کا وزیراعظم بنانے میں ایک بڑا کردارآصف زرداری صاحب کا بھی سمجھا جاتا ہے جبکہ حقیقت میں یہ بات نہیں ہے۔ زرداری صاحب نے صرف اسٹیبلشمنٹ کی شہبازشریف کی وزارت عظمیٰ پرمخالفت نہیں کی، مخالفت نہ کرنے کی بھی ایک بڑی وجہ تھی اوروہ سندھ کی حکومت تھی۔ پیپلزپارٹی سندھ میں کئی ترقیاتی منصوبے شروع کر چکی تھی جن کی تکمیل کے لیے انہیں کچھ وقت درکار تھا اوران منصوبوں کی تکمیل کے بغیر اگلے الیکشن میں جانا مشکل ہو جاتا۔ آصف زرداری صاحب کوشہبازشریف کے وزیارعظم بننے سے وقت بھی مل گیا، عمران خان سے بھی جان چھوٹ گئی اورڈیڑھ سال کے لیے اسٹیبلشمنٹ کا خطرہ بھی ٹل گیا۔

2024 کے الیکشن کی تیاری کے سلسلے میں نوازشریف کو خاص طور پرپاکستان لایا گیا ، اس وقت بھی سیاست پر گہری نظر رکھنے والوں کو اس بات کی خبر تھی کہ نواز شریف کو الیکشن کے لیے استعمال کیا جائے گا جبکہ وزیراعظم ان کے چھوٹے میاں، شہبازشریف کو ہی بنایا جائے جو اب فیورٹ ہونے کے ساتھ ساتھ آزمودہ بھی ہو چکے ہیں۔ الیکشن کے نتائج کے بعد نواز شریف سمیت سبھی لوگ ہارے جو جیتا وہ صرف شہباز شریف تھا۔ ویسے تو منافع بخش کاروباری ہونے کہ وجہ سے نوازشریف بھی”ساڈا حق ایتھے رکھ“والی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے اپنی بیٹی مریم نواز کو پنجاب کی وزیراعلی بنوانے میں کامیاب ہو گئے۔

 اسٹیبلشمنٹ کوعرصہ دراز سے ایسے ہی ایک وزیراعظم کی تلاش تھی جوانتظامی اموربھی دیکھ سکتا ہو، پنگا نہ لینے کی سرشت بھی رکھتا ہو، اورعرصہ دراز سے دیکھا بھالا بھی ہو تو پھر ایسی صورتحال میں شہباز شریف جیسے موزوں وزیراعظم کو بھلا وہ کیسے چھوڑسکتے تھے اور وہ بھی اس مقام پر جہاں عمرانی جنون میسرہ اور میمنہ سے ہوتے ہوئے قلب کو چیر رہا تھا۔ 2022 سے لے کر اب تک مملکت پاکستان کی سیاست میں جو جیت رہا ہے وہی شہباز ہے!


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔