بلاگ
Time 30 اپریل ، 2024

اسحاق ڈار : نوازشریف کا رائٹ ہینڈ یا فرنٹ مین؟

وزیراعظم شہبازشریف نے وزیرخارجہ اسحاق ڈار کو نائب وزیراعظم کا اضافی عہدہ سونپ کر ایک تیر سے کئی شکار کیے ہیں اور ساتھ ہی نوواردان ن لیگ حکومت کو دو ٹوک پیغام بھی دےدیا ہے۔

اپوزیشن کا حق ہے کہ وہ اسحاق ڈار کے بارے میں جو دل میں آئے کہے۔ جیسا کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے اسحاق ڈار کو سابق وزیراعظم نوازشریف کا فرنٹ مین کہہ ڈالا ہے تو جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے انہیں نوازشریف کا سمدھی ہونے کا طعنہ دیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اسحاق ڈار دراصل مسلم لیگ ن کے قائد میاں نوازشریف کے فرنٹ مین نہیں رائٹ ہینڈ ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اسحاق ڈار مسلم لیگ ن کےقائد میاں نوازشریف کے سمدھی ہیں۔یہ بات بھی بجا ہے کہ ن لیگ وزارتیں گھر میں بانٹ رہی ہے مگر واقفان حال جانتے ہیں کہ اگر وزارتیں غیروں میں بانٹی جائیں تو نتیجہ نکلتا کیا ہے، انکی ڈوریاں ہلنی کہاں سے شروع ہوجاتی ہیں اور حکومت کے عوام کی توقعات پر پورا نہ اُترنے کا الزام جاتا کس کے سر ہے۔

شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل اسکی زندہ مثال ہیں جو اب گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے، لائے فوج چڑھا کے مصداق اپنی پارٹی بنا کر ن لیگ ہی کو چیلنج کرنے کا سوچ رہے ہیں۔

ہاں یہ ضرور ہے کہ سیاسی حلقوں کو اس بات پر حیرت ہوئی کہ اسحاق ڈار کو نائب وزیراعظم کے عہدے پر ترقی دینے کی خبر وزیراعظم ہاؤس نے ریاض سے ایسے وقت جاری کی جب میاں شہبازشریف عالمی اقتصادی فورم کے اجلاس میں شریک تھے،انہیں عالمی رہنماؤں اور مالیاتی اداروں کے سربراہوں سے ملاقاتیں کرنا تھیں۔

اسحاق ڈار :  نوازشریف کا رائٹ ہینڈ یا فرنٹ مین؟

تاہم اس تقرری کا ایک پس منظر ہے۔ یہ اقدام ایسے وقت بھی کیا گیا ہے جب سعودی عرب کے وزیرخارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان آل سعود کی سربراہی میں اعلیٰ ترین سعودی وفد پاکستان کا دورہ کرچکا ہے اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی پاکستان آمد جلد متوقع ہے۔

یوں تو سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کو سعودی عرب کے شاہی خاندان کی نظر میں ہمیشہ سے اہمیت حاصل رہی ہے تاہم یہ حقیقت عیاں ہے کہ جدہ میں جلاوطنی کےدور میں میاں نوازشریف اور سعودی شاہی خاندان کے درمیان تعلق کے نئے باب میں اضافہ ہوا تھا۔

کم لوگ جانتے ہیں کہ جلاوطنی کے اُسی دور سے آج تک، وزارت کے منصب پر فائض ہوں یا نہیں، اسحاق ڈار کو سعودی عرب میں وزیر جیسا ہی پروٹوکول دیا جاتا رہا ہے۔یہ تعلق کتنا ہی علامتی احترام کا ہو، یہ اعتماد کی بھی نشانی ہے۔

سعودی عرب اگر پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے تو اسے پالیسیوں کے تسلسل کی ضمانت بھی درکار ہوگی۔اسحاق ڈار وزیرخزانہ نہ سہی مگر اب نائب وزیراعظم کے طورپر وہ معاشی امور میں کیے جانیوالے کلیدی فیصلوں کا حصہ ہوں گے۔

آئی ایم ایف کی سربراہ سے ریاض میں ملاقات کے موقع پر وزیرخزانہ محمد اورنگزیب سے پہلے وزیراعظم کے بالکل دائیں جانب اسحاق ڈار کو نشست دیا جانا اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

جو لوگ پرویزالٰہی کے نائب وزیراعظم ہونےکا مقابلہ اسحاق ڈار کے نائب وزیراعظم ہونے سے کررہے ہیں، وہ زمینی حقائق سے واقف نہیں۔ پرویزالٰہی کو اتحاد میں ایڈجسٹ کیا گیا تھا، عہدہ دیا جانا اس دور کی مجبوری تھی، اسلئے نمائشی منصب دے کر چوہدریوں کی پگ اونچی تو کردی گئی تھی مگر اختیارات نام کو بھی نہ دیے گئے تھے۔ ڈار اور الٰہی کے اس عہدے کو سنبھالنے میں اسی لیے زمین آسمان کا فرق ہے۔

یوں تو آئینی ماہرین متفق ہیں کہ پاکستان کے آئین میں نائب وزیراعظم کے عہدے کا ذکر نہیں تاہم اس عہدے کو محض نمائشی قرار دے کر مسترد نہیں کیا جاسکتا۔حقیقت یہ ہے کہ یہ وزیراعظم پر منحصر ہے کہ وہ اپنے کتنے فیصلوں میں نائب وزیراعظم کے مشورے شامل کرتا ہے اور کہاں تک اسے اختیار دیتا ہے کہ وہ خود اہم فیصلے کرے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے یہ تو واضح نہیں کہ نائب وزیراعظم کے اختیارات کیا ہوں گے تاہم توقع کی جاسکتی ہے کہ جن دو کابینہ کمیٹیوں یعنی اقتصادی رابطہ کمیٹی اور کابینہ کی توانائی کمیٹی، کی سربراہی خود وزیراعظم کررہے تھے ،اب ان میں اسحاق ڈار کی مشاورت کو فوقیت دی جائے گی۔

اسی طرح نجکاری کمیٹی کے فیصلے بھی اسحاق ڈار ہی کریں گے۔ کیونکہ جب انہیں نجکاری کمیٹی کی سربراہی سونپی گئی تھی توبعض حلقوں کی جانب سے اعتراض اُٹھایا گیا تھا کہ وزیرخزانہ کی جگہ وزیر خارجہ کو اس کمیٹی کی سربراہی کیوں سونپ دی گئی۔

اسحاق ڈار پر اس وقت کے اعتراضات نے سن دوہزار سترہ دور کی یادیں تازہ کردی تھیں جب ن لیگ کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بہ جنبش قلم اپنے ہی وزیرخزانہ اسحاق ڈار کو تمام اقتصادی کمیٹیوں کی سربراہی سے برطرف کرکے چہیتے مفتاح اسماعیل کو اقتصادی امور میں معاون خصوصی بنا کر وزیراعظم ہاؤس بلالیا تھا۔

یہ انہی اسحاق ڈار کی برطرفی تھی جنہیں نوازشریف نے اپنی وزارت عظمی کے دور میں تمام ترمالیاتی اور اقتصادی امور ہی نہیں کئی دیگر کمیٹیوں کی بھی سربراہی سونپی تھی۔ شہباز شریف کی جانب سے اسحاق ڈار کو اضافی اختیارات دیا جانا اسی لیے غیر معمولی بات نہیں۔

اسحاق ڈار کویہ عہدہ ایسے وقت بھی دیا گیا ہے جب میاں شہبازشریف پر تنقید بڑھ رہی ہے کہ انہوں نے بعض حلقوں کو خوش کرنے کے لیے باہر کے لوگوں کو وزارت خزانہ اور وزارت داخلہ سونپ دی ہے۔ اس طرح انہوں نے اپنی وزارت عظمی پکی کرلی ہے مگر ان وزارتوں کے لیے نسبتاً زیادہ اہل سمجھنے والے ن لیگ کے رہنماؤں کو نظرانداز کردیا ہے۔

شہبازشریف کے بارے میں واضح تاثر ہے کہ وہ مسلم لیگ ن کے قائد میاں نوازشریف سے کئی امور پر اختلاف رکھتے ہیں اور اسی لیے نوازشریف کی جگہ انہیں وزیراعظم قبول کیا گیا۔ اسحاق ڈار کو نائب وزیراعظم بنا کر شہباز شریف نے نوواردان ن لیگ حکومت کو یہ پیغام بھی دیا ہے کہ بھائیوں میں لاکھ اختلافات سہی، نوواردان کی جگہ ایک درجے پیچھے ہی رہے گی۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔