عمر بڑھنے کے ساتھ مسلز کمزور ہونے کی وجہ سائنسدانوں نے جان لی

ایک تحقیق میں اس بارے میں بتایا گیا / فائل فوٹو
ایک تحقیق میں اس بارے میں بتایا گیا / فائل فوٹو

عمر بڑھنے کے ساتھ ہر فرد بوڑھا ہو جاتا ہے مگر تنزلی کے اس عمل پر ہمارے جسم کا ردعمل کیا ہوتا ہے؟ سائنسدانوں نے اس بارے میں دریافت کرلیا ہے۔

برطانیہ کے Wellcome Sanger Institute اور چین کی سن یاٹ سین یونیورسٹی کے ماہرین نے انسانی جسم کا ایک مسل میپ تیار کرکے اس خصوصی حصے کی شناخت کی جو عمر میں اضافے سے اعصاب میں آنے والی تنزلی پر رابطے کو دوبارہ بنانے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔

اس تحقیق کا مقصد تمام انسانی خلیات کے منظم نقشہ تیار کرنا ہے تاکہ جسمانی صحت، امراض کی تشخیص اور علاج کے حوالے سے پیشرفت ہوسکے۔

اسی دوران محققین نے یہ جانچ پڑتال بھی کی کہ وقت کے ساتھ مسلز کمزور کیوں ہو جاتے ہیں۔

اس مقصد کے لیے 20 سے 75 سال کی عمر کے 17 افراد کے مسلز کے نمونوں کا تجزیہ کیا گیا۔

تحقیق میں ان جینز کو دریافت کیا گیا جو ribosomes کو کنٹرول کرتے ہیں۔

ribosomes جسم میں پروٹینز کی تیاری کے لیے اہم ہوتے ہیں اور معمر افراد کے مسلز کے خلیات میں انہیں کم متحرک دریافت کیا گیا۔

اس کے نتیجے میں عمر بڑھنے کے ساتھ ہمارے جسم کی مسلز کے ریشے دوبارہ نئے کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔

تحقیق کے دوران ورم کا باعث بننے والے سی سی ایل 2 مالیکیولز تیار ہونے کی وجہ بھی دریافت کی گئی۔

یہ مالیکیولز مسلز میں موجود مدافعتی خلیات کو اپنی جانب کھینچتے ہیں اور مسلز کی تنزلی کے عمل کو تیز کر دیتے ہیں۔

محققین کے مطابق اس دریافت سے مستقبل میں عمر بڑھنے کے ساتھ مسلز کی صحت اور معیار زندگی کو بہتر بنانے کے طریقوں کو تشکیل دینے میں مدد مل سکے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ انسانی خلیات کے نقشے کے ذریعے ہم جسم کے بارے میں بہت کچھ جان رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان نئی تفصیلات سے ماہرین کو ورم پر قابو پانے، مسلز کی بحالی، اعصابی کنکشن کو محفوظ رکھنے اور دیگر معاملات کے حوالے سے مدد مل سکے گی۔

لیبارٹری میں تیار کیے گئے انسانی مسلز کے خلیات کے نمونوں پر تجربات سے تصدیق ہوئی کہ مسلز کے فعال کو مستحکم رکھنے کے لیے خصوصی حصے کی اہمیت کتنی زیادہ ہے۔

محققین کے مطابق اس حوالے سے مزید تحقیق کا دروازہ کھل گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ تحقیق سے مستقبل قریب میں مسلز کی صحت درست رکھنے کے لیے نئے علاج تیار کرنے میں مدد ملے گی۔

اس تحقیق کے نتائج جرنل نیچر ایجنگ میں شائع ہوئے۔

مزید خبریں :