کانگریس کے بعد امریکی سینیٹ نے بھی ٹک ٹاک پر پابندی کے بل کی منظوری دیدی

ٹک ٹاک اس پابندی کے خلاف قانونی جنگ لڑنے کیلئے تیار ہے / رائٹرز فوٹو
ٹک ٹاک اس پابندی کے خلاف قانونی جنگ لڑنے کیلئے تیار ہے / رائٹرز فوٹو

ایوان نمائندگان کانگریس کے بعد امریکی سینیٹ نے بھی ٹک ٹاک پر مشروط پابندی کے بل کی منظوری دے دی ہے۔

اس بل کے تحت ٹک ٹاک کی سرپرست کمپنی بائیٹ ڈانس کو مقبول سوشل میڈیا ایپ کسی امریکی کمپنی کو فروخت کرنے کے لیے ایک سال کی مہلت دی گئی ہے، ایسا نہ کرنے پر اس پر پابندی عائد کی جائے گی۔

اس بل کے حق میں 79 جبکہ مخالفت میں 18 ووٹ ڈالے گئے۔

اس سے قبل 20 اپریل کو کانگریس میں اس بل کی منظوری دی گئی تھی ٓاور اب سینیٹ کی منظوری کے بعد اسے صدر جو بائیڈن کو بھیجا جائے گا، جن کے دستخط کے بعد اسے قانون کی حیثیت مل جائے گی۔

اس قانون کے تحت اگر ٹک ٹاک کو کسی امریکی کمپنی کو فروخت نہیں کیا جاتا تو ایک سال بعد امریکا میں گوگل پلے اسٹور اور ایپل کے ایپ اسٹور میں ٹک ٹاک ایپ کو ڈیلیٹ کر دیا جائے گا۔

دوسری جانب ٹک ٹاک نے اس قانون کے حوالے سے قانونی جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔

امریکا میں ٹک ٹاک کے پبلک پالیسی شعبے کے سربراہ مائیکل بیکر مین نے ملازمین کے نام ایک میمو میں کہا کہ جب اس بل پر دستخط ہو جائیں گے تو ہم اس کے خلاف عدالتوں میں جائیں گے۔

مائیکل بیکر مین نے میمو میں کہا کہ ٹک ٹاک کی فروخت یا پابندی کا قانون ٹک ٹاک کے 17 کروڑ امریکی صارفین کے حقوق کی واضح خلاف ورزی ہے اور اس سے 70 لاکھ چھوٹے کاروباری اداروں پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہم اس حوالے سے جنگ جاری رکھیں گے، یہ طویل جدوجہد کا اختتام نہیں بلکہ آغاز ہے۔

ٹک ٹاک پہلے بھی امریکا میں ریاستی سطح پر ٹک ٹاک کے خلاف پابندی کے خلاف عدالتوں میں کامیابی حاصل کر چکی ہے۔

2023 میں ایک فیڈرل عدالت نے ریاست مونٹانا میں ٹک ٹاک پر پابندی کو روکتے ہوئے کہا تھا کہ یہ صارفین کے اظہار رائے کی آزادی کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

امریکا کی جانب سے ٹک ٹاک کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا جاتا ہے جبکہ کمپنی کی جانب سے برسوں سے امریکی حکومت کو یقین دہانی کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ یہ مقبول ایپ امریکی سلامتی کے لیے خطرہ نہیں۔