آج کل بیشتر افراد کی پسندیدہ غذا جو قبل از وقت موت کا خطرہ بڑھاتی ہے

یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی / فائل فوٹو
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی / فائل فوٹو

میٹھے مشروبات اور الٹرا پراسیس غذاؤں کا زیادہ استعمال قبل از وقت موت کا خطرہ بڑھاتا ہے۔

یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

ہارورڈ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں ایک لاکھ 14 ہزار سے زائد افراد کو شامل کیا گیا تھا۔

یہ تحقیق 34 سال تک جاری رہی اور اس دوران موجودہ عہد کی غذاؤں سے جسم پر مرتب اثرات کی جانچ پڑتال کی گئی۔

تحقیق کے آغاز میں ان افراد کی عمریں 35 سے 75 سال کے درمیان تھیں اور ہر 2 سال بعد ان کی صحت اور طرز زندگی کی عادات کی تفصیلات حاصل کی گئیں۔

34 سال کے دوران 48 ہزار سے زائد افراد کینسر، امراض قلب، نظام تنفس یا دماغی تنزلی کے امراض کے باعث انتقال کر گئے۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ پراسیس گوشت کے زیادہ استعمال سے قبل از وقت موت کا خطرہ 13 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

خیال رہے کہ گوشت کو زیادہ دنوں تک خراب ہونے سے بچانے یا اس کے ذائقے میں تبدیلی کے لیے پراسیس کیا جاتا ہے، جس کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔

اسی طرح چینی یا مصنوعی مٹھاس سے تیار کردہ مشروبات کا اکثر استعمال قبل از وقت موت کا خطرہ 9 فیصد تک بڑھاتا ہے۔

دیگر الٹرا پراسیس غذاؤں کے زیادہ استعمال یہ خطرہ 4 فیصد تک بڑھتا ہے۔

واضح رہے کہ الٹرا پراسیس غذائیں تیاری کے دوران متعدد بار پراسیس کی جاتی ہیں اور ان میں نمک، چینی اور دیگر مصنوعی اجزا کی مقدار کافی زیادہ ہوتی ہے جبکہ صحت کے لیے مفید غذائی اجزا جیسے فائبر کی مقدار بہت کم ہوتی ہے۔

الٹرا پراسیس غذاؤں میں ڈبل روٹی، فاسٹ فوڈز، مٹھائیاں، ٹافیاں، کیک، نمکین اشیا، بریک فاسٹ سیریلز، چکن اور فش نگٹس، انسٹنٹ نوڈلز، میٹھے مشروبات اور سوڈا وغیرہ شامل ہیں۔

ان غذاؤں کے زیادہ استعمال کو موٹاپے، امراض قلب، ذیابیطس اور کینسر کی مخصوص اقسام کے ساتھ منسلک کیا جاتا ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ سفید ڈبل روٹی اور ناشتے میں استعمال ہونے والے cereals کے استعمال سے قبل از وقت موت کا خطرہ 4 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

محققین نے بتایا کہ نتائج سے واضح ہوتا ہے کہ الٹرا پراسیس غذائیں اور میٹھے مشروبات جسمانی صحت پر نمایاں منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ان غذاؤں کے استعمال کو محدود کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مختلف امراض کا خطرہ کم ہو سکے۔

انہوں نے تسلیم کیا کہ تحقیق محدود تھی اور نتائج کی تصدیق کے لیے مزید تحقیقی کام کرنے کی ضرورت ہے۔

مزید خبریں :