Time 22 مئی ، 2024
صحت و سائنس

صحت مند افراد کے لیے روزانہ کتنے آم کھانا بہتر ہوتا ہے؟

آم کو پھلوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے / فائل فوٹو
آم کو پھلوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے / فائل فوٹو

آم کو پھلوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے کیونکہ اس کا ذائقہ ایسا ہوتا ہے کہ جتنا بھی کھا لیں دل نہیں بھرتا۔

موسم گرما کے ساتھ ہی بازاروں میں آموں کا ڈھیر لگ جاتا ہے جن کو دیکھ کر ہی منہ میں پانی بھر جاتا ہے۔

آموں کا ذائقہ ہی بہترین نہیں ہوتا بلکہ یہ پھل صحت کے لیے بھی بہت زیادہ مفید ثابت ہوتا ہے۔

اس میں قدرتی مٹھاس بہت زیادہ ہوتی ہے جو چینی سے مختلف ہوتی ہے کیونکہ یہ فائبر اور دیگر غذائی اجزا کے باعث جسم کے لیے نقصان دہ ثابت نہیں ہوتی۔

آموں میں قدرتی مٹھاس بہت زیادہ ہوتی ہےاور اسی وجہ سے ذیابیطس کے مریض فکرمند ہوتے ہیں کہ یہ مٹھاس بلڈ شوگر کی سطح کو بڑھانے کا باعث نہ بن جائے۔

مگر سوال یہ ہے کہ ذیابیطس سے محفوظ افراد روزانہ کتنے آم کھا سکتے ہیں؟

ویسے تو ذیابیطس کے مریض بھی اس پھل سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں جس کے لیے مقدار کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے۔

مگر صحت مند افراد کے لیے بھی ضروی ہے کہ وہ اعتدال میں رہ کر اس پھل کا استعمال کریں کیونکہ اس میں موجود کاربوہائیڈریٹس (گلوکوز، شکر، نشاستہ اور سلولوز جیسے کیمیائی مرکبات کا گروہ) جسم کے اندر شکر میں تبدیل ہوکر بلڈ گلوکوز کی سطح پر اثرات مرتب کرتے ہیں۔

روزانہ کتنے آم کھانا بہتر ہوتا ہے؟

طبی ماہرین کے مطابق آم میں قدرتی مٹھاس بہت زیادہ ہوتی ہے اور فائبر کی مقدار دیگر پھلوں سے کم ہوتی ہے تو بہتر ہے کہ صحت مند افراد ایک دن میں ڈیڑھ سے 2 کپ یا 330 گرام سے زیادہ آم کھانے سے گریز کریں۔

اگر آپ ذیابیطس کے شکار ہیں تو دن بھر میں 2 سلائیس سے زیادہ مت کھائیں بلکہ 2 سلائیس کھانے کے بعد بھی دیکھیں کہ بلڈ شوگر کی سطح میں اضافہ تو نہیں ہوا اور اس کے بعد تعین کریں کہ آئندہ دنوں میں کتنی مقدار زیادہ بہتر رہے گی۔

واضح رہے کہ ایک آم سے جسم کو پروٹین، کاربوہائیڈریٹس، فائبر، قدرتی مٹھاس، وٹامن سی، وٹامن بی 6، وٹامن اے، وٹامن ای، وٹامن K، کاپر، فولیٹ، پوٹاشیم، میگنیشم اور ریبوفلوین جیسے اجزا ملتے ہیں۔

آم میں موجود وٹامن سی مدافعتی نظام کو طاقتور بناتا ہے جبکہ جسم کو آئرن جذب کرنے میں مدد فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ خلیات کی صحت کو بہتر بناتا ہے۔

نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔

مزید خبریں :