Time 26 مئی ، 2024
صحت و سائنس

تربوز کے چھلکوں سے صحت کو ہونے والے فائدے جانتے ہیں؟

تربوز کے چھلکوں سے صحت کو ہونے والے فائدے جانتے ہیں؟
تربوز کے بیج بھی صحت کے لیے مفید ہوتے ہیں / فائل فوٹو

تربوز ایسا پھل ہے جس میں صحت کے لیے مفید متعدد غذائی اجزا موجود ہوتے ہیں۔

گرم موسم میں تو یہ پھل جادوئی تصور کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس کا 92 فیصد حصہ پانی پر مشتمل ہوتا ہے۔

اس کے ساتھ وٹامن اے، وٹامن سی، پوٹاشیم، میگنیشم اور دیگر غذائی اجزا بھی تربوز میں موجود ہوتے ہیں۔

زیادہ تر افراد تربوز کے گلابی حصے کو کھاتے ہیں اور چھلکوں کو کچرے میں پھینک دیتے ہیں۔

مگر کھیروں کی طرح تربوز کو بھی چھلکوں کے ساتھ کھایا جا سکتا ہے۔

تربوز کے چھلکوں کے چند فوائد درج ذیل ہیں۔

مسلز بہتر ہوتے ہیں

تربوز کے چھلکوں میں citrulline نامی امینو ایسڈ ہوتا ہے جو مسلز کی صحت کو بہتر بناتا ہے۔

اس امینو ایسڈ سے خون کی شریانیں کشادہ ہوتی ہیں اور مسلز تک آکسیجن کی فراہمی بہتر ہوتی ہے جس سے ورزش کے دوران جسمانی کارکردگی بہتر ہوتی ہے۔

بلڈ پریشر میں کمی

اگر آپ ہائی بلڈ پریشر سے پریشان ہیں تو تربوز کے چھلکوں کو استعمال کر کے دیکھیں۔

تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا کہ تربوز کے گلابی حصے سے بھی بلڈ پریشر کو کنٹرول رکھنے میں مدد ملتی ہے مگر چھلکوں میں موجود citrulline اس حوالے سے زیادہ مؤثر ثابت ہوتا ہے۔

تربوز کے چھلکوں سے خون کی شریانیں بھی کشادہ ہوتی ہیں جس سے بھی بلڈ پریشر کو مستحکم رکھنے میں مدد ملتی ہے۔

فائبر سے بھرپور

تربوز کے چھلکوں میں فائبر کی مقدار کافی زیادہ ہوتی ہے۔

فائبر وہ غذائی جز ہے جو صحت کے لیے بہت زیادہ مفید ہوتا ہے۔

فائبر سے آپ خود کو قبض جیسے عام مسئلے سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔

اسی طرح فائبر سے کولیسٹرول اور بلڈ شوگر کی سطح میں کمی آتی ہے جبکہ وزن کو بھی کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔

ورم کش

یہ چھلکے ورم کش ہوتے ہیں اور اس سے مختلف اعضا کو ورم سے بچانے میں مدد ملتی ہے۔

ان چھلکوں میں موجود زنک اور میگنیشم جیسے اجزا جسمانی افعال کو درست رکھنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔

مدافعتی نظام مضبوط ہوتا ہے

تربوز کے چھلکے متعدد وٹامنز اور اینٹی آکسائیڈنٹس کے حصول کا اچھا ذریعہ ہیں۔

ان اینٹی آکسائیڈنٹس سے مدافعتی نظام مضبوط ہوتا ہے اور ہمارا جسم متعدد امراض سے لڑنے کے قابل ہو جاتا ہے۔

نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔

مزید خبریں :