07 جون ، 2024
انرجی ڈرنکس کا استعمال آج کل بہت زیادہ ہورہا ہے مگر یہ مشروب آپ کے لیے جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
یہ انتباہ امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آیا۔
مایو کلینک کی تحقیق میں انتباہ کیا گیا کہ انرجی ڈرنکس کے استعمال سے اچانک حرکت قلب اچانک تھم جانے (کارڈک اریسٹ) کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
اس طرح کے مشروبات میں کیفین اور دیگر ایسے اجزا کی مقدار کافی زیادہ ہوتی ہے جو امراض قلب کے خطرے سے دوچار افراد کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔
اس تحقیق میں کارڈک اریسٹ کا سامنا کرنے والے 144 مریضوں کا جائزہ لیا گیا تھا۔
ان میں سے 7 مریض ایسے تھے جنہوں نے کارڈک اریسٹ سے کچھ دیر قبل ایک یا اس سے زائد انرجی ڈرنکس کا استعمال کیا تھا۔
محققین نے دل کے ایسے مسائل کی جانچ پڑتال بھی کی جن کا سامنا ان مریضوں کو ہوا۔
اگرچہ تحقیق میں یہ تو ثابت نہیں ہوا کہ انرجی ڈرنکس کا استعمال براہ راست کارڈک اریسٹ کا باعث بنتا ہے مگر محققین نے انتباہ کیا کہ لوگوں خاص طور پر امراض قلب کے خطرے سے دوچار افراد کو ان مشروبات سے گریز کرنا چاہیے یا کم از کم مقدار کا استعمال کرنا چاہیے۔
انہوں نے بتایا کہ اگرچہ انرجی ڈرنک کے استعمال سے اچانک موت کا خطرہ بہت زیادہ دریافت نہیں ہوا مگر ان مشروبات سے صحت کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا، البتہ نقصان ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
اس تحقیق کے نتائج جرنل ہارٹ ردہم میں شائع ہوئے۔
اس سے قبل جنوری 2024 میں ناروے میں ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ مہینے بھر میں محض ایک انرجی ڈرنک کا استعمال ہی نیند کے مسائل کا خطرہ بڑھانے کے لیے کافی ہے۔
اس تحقیق میں 18 سے 35 سال کی عمر کے 53 ہزار سے زائد افراد کو شامل کیا گیا تھا۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ جو مرد ہر ہفتے 2 سے 3 بار اس مشروب کا استعمال کرتے ہیں، ان میں تاخیر سے نیند کا امکان 35 فیصد جبکہ 6 گھنٹے سے کم نیند کا خطرہ 52 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔
اسی طرح نیند کے دوران جاگنے کا امکان 60 فیصد زیادہ بڑھ جاتا ہے۔
اس کے مقابلے میں ہر ہفتے 2 سے 3 انرجی ڈرنکس پینے کی عادی خواتین میں تاخیر سے نیند کا امکان 20 فیصد تک بڑھ جاتا ہے جبکہ 6 گھنٹے کم نیند کا خطرہ 58 فیصد اور رات میں جاگنے کا امکان 24 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔
تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ جو افراد اس مشروب کا استعمال روزانہ کرتے ہیں، انہیں آدھی رات کو جاگنے کے بعد دوبارہ سونے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔
اس تحقیق کے نتائج بی ایم جے اوپن جرنل میں شائع ہوئے۔