23 جون ، 2024
یورپ، ایشیا اور شمالی امریکا کے متعدد ممالک آج کل شدید گرمی اور ہیٹ ویوز کے باعث کروڑوں افراد معمول سے زیادہ درجہ حرارت کا سامنا کر رہے ہیں۔
سائنسدانوں کی جانب سے گزشتہ 12 مہینوں کو تاریخ کے گرم ترین مہینے قرار دیا گیا ہے۔
اسی طرح موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں ہیٹ ویوز کی شدت اور دورانیے میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ایک سوال اکثر افراد کرتے ہیں کہ آخر کتنا درجہ حرارت روزمرہ کی سرگرمیوں کے لیے بہت زیادہ تصور کیا جا سکتا ہے۔
اس سوال کا جواب سادہ نہیں کیونکہ درجہ حرارت کے ساتھ ساتھ فضا میں موجود نمی کی مقدار بھی اس حوالے سے کردار ادا کرتی ہے۔
2010 کی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ زیادہ نمی والے علاقے میں 35 ڈگری سینٹی گریڈ انسانی جسم کے تحفظ کی آخری حد ہے۔
اس سے زیادہ درجہ حرارت میں انسانی جسم پسینے کو بخارات بنا کر خود کو ٹھنڈا نہیں رکھ پاتا اور جسمانی درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے جس سے ہیٹ اسٹروک کا خطرہ بڑھتا ہے۔
مگر حالیہ برسوں میں عالمی سطح پر درجہ حرارت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور انسانی جسم کی برداشت بھی متاثر ہوئی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس بارے میں سائنسدانوں کی جانب سے کافی تحقیقی کام کیا جا رہا ہے۔
2023 میں برطانیہ کی Roehampton یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ 40 ڈگری درجہ حرارت پر انسانی جسم کے لیے گرمی کو کنٹرول کرنے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے اور اسے خود کو ٹھنڈا رکھنے میں سخت جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔
اس تحقیق میں 13 بالغ افراد پر کو مختلف درجہ حرارت اور نمی والے ماحول میں ایک گھنٹے تک آرام کرایا گیا۔
تحقیق کے دوران 27 سے 50 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت میں تجربات کیے گئے تھے۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جب درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچتا ہے تو میٹابولک ریٹ بڑھ جاتا ہے، خاص طور پر اگر فضا میں نمی بہت زیادہ ہو۔
محققین کے مطابق نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ 40 سے 50 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت پر انسانی جسم کو خود کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے بہت زیادہ جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ صرف زیادہ درجہ حرارت ہی انسانی صحت کے لیے خطرہ نہیں بلکہ گرمی کے ساتھ ساتھ زیادہ نمی بھی جسم کے لیے زیادہ خطرناک ثابت ہوتی ہے۔
امریکا کی پنسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی نے جولائی 2023 میں ایک تحقیق کے دوران بتایا تھا کہ فضا میں زیادہ نمی (50 فیصد سے زیادہ) اور درجہ حرارت کے امتزاج کے باعث انسانی جسم 35 کی بجائے 31 ڈگری سینٹی گریڈ پر ہی خود کو ٹھنڈا رکھنے میں ناکام ہونے لگتا ہے۔
امریکی تحقیق میں بتایا گیا کہ خشک اور گرم موسم میں ہمارا جسم پسینے کو بخارات بناکر خود کو ٹھنڈا رکھنے میں کامیاب ہوتا ہے، مگر انسان ایک مخصوص حد تک ہی پسینہ خارج کر سکتے ہیں جس کے بعد جسم زیادہ حرارت اکٹھی کرنے لگتا ہے۔
مگر اس طرح کے موسم میں جسم 40 ڈگری سینٹی گریڈ پر بھی روزمرہ کے کام احتیاط کے ساتھ آرام سے کر لیتا ہے۔
اس کے مقابلے میں درجہ حرارت کم ہو مگر نمی زیادہ ہو تو اس سے دل اور دیگر جسمانی نظاموں پر دباؤ بڑھتا ہے۔
اس طرح کے موسم میں 30 ڈگری سینٹی گریڈ سے اوپر درجہ حرارت ہونے پر جسم کے لیے اپنا درجہ حرارت کنٹرول کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
اب محققین کی جانب سے بوڑھے افراد پر تحقیق کی جائے گی کیونکہ عمر بڑھنے سے انسانی جسم کی گرمی برداشت کرنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ زیادہ گرم موسم کے دوران مناسب مقدار میں پانی پینا اور ٹھنڈی جگہوں پر رہنا ضروری ہے۔