گرم موسم سے جسم پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟

ہر سال گرمی کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے / فائل فوٹو
ہر سال گرمی کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے / فائل فوٹو

گرمی کی شدت میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے اور آنے والے برسوں میں درجہ حرارت مزید بڑھنے کا ہی امکان ہے۔

مگر سوال یہ ہے کہ گرم موسم سے انسانی جسم پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟

حقیقت تو یہ ہے کہ بہت کم افراد کو علم ہوتا ہے کہ گرمی سے جسم پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے تو جسم پر اس کے مختلف اثرات مرتب ہوتے ہیں جیسے پسینہ خارج ہونے لگتا ہے، تھکاوٹ یا نقاہت کا احساس ہوتا ہے اور پیاس بہت زیادہ محسوس ہونے لگتی ہے۔

تو یہ جاننا ضروری ہے کہ گرم موسم کس طرح ہمارے جسم پر اثر انداز ہوتا ہے۔

جِلد

سورج کی روشنی میں موجود الٹرا وائلٹ شعاعوں میں زیادہ وقت گزارنے سے جِلد جل جاتی ہے جسے سن برن بھی کہا جاتا ہے۔

جسم کا جتنا حصہ سن برن کا شکار ہوگا، اتنا جِلد کے کینسر کا خطرہ بڑھ جائے گا۔

سورج کی الٹرا وائلٹ شعاعوں سے جِلدی خلیات کے ڈی این اے کو نقصان پہنچتا ہے۔

جب ڈی این اے کو نقصان پہنچتا ہے تو خلیات قابو سے باہر ہو جاتے ہیں جس سے جِلد کے کینسر کا خطرہ بڑھتا ہے۔

دماغ

اگر آپ کو بہت زیادہ گرمی لگ رہی ہو تو درست طریقے سے سوچنا بہت مشکل ہوتا ہے۔

تحقیقی رپورٹس سے ثابت ہوا ہے کہ شدید گرمی سے ذہنی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔

گرم موسم دماغی افعال کو تنزلی کا شکار کرتا ہے جبکہ غلط فیصلے کرنے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

ایک حالیہ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ معمول کے درجہ حرارت میں محض ایک ڈگری سینٹی گریڈ اضافے سے بھی ڈپریشن اور انزائٹی سے متاثر ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

درجہ حرارت میں اضافے سے ایک دماغی کیمیکل سیروٹونین پر بھی منفی اثرات ہوتے ہیں، یہ کیمیکل مزاج کو خوشگوار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے یا یوں کہہ لیں کہ غصے کو کنٹرول میں رکھتا ہے۔

یہ کیمیکل جِلد کے درجہ حرارت کے بارے میں تفصیلات دماغ کے اس حصے تک پہنچاتا ہے جو پسینے اور کپکپی جیسے ردعمل کو کنٹرول کرتا ہے۔

پسینہ

ہمارا جسم درجہ حرارت میں تبدیلی کو محسوس کرلیتا ہے اور اس کے مطابق تبدیلیاں لاتا ہے تاکہ جسمانی درجہ حرارت 37 ڈگری سینٹی گریڈ پر برقرار رہ سکے۔

اگر دماغ کو لگتا ہے کہ جسم گرم ہو رہا ہے تو اس کی جانب سے جِلد کے قریب موجود خون کی شریانوں کو پیغام بھیج کر کشادہ ہونے کا کہا جاتا ہے۔

اس سے جِلد کی سطح پر خون کی فراہمی بڑھتی ہے اور پسینے کا اخراج ہوتا ہے، جس سے جسمانی درجہ حرارت کم ہوتا ہے۔

مگر پسینہ گرمی کو کنٹرول کرنے والا کوئی مثالی نظام نہیں، جسمانی طور پر متحرک شخص 10 لیٹر تک پانی پسینے کی شکل میں خارج کر سکتا ہے اور اگر اس کمی کو پورا نہ کیا جائے تو جسم ڈی ہائیڈریشن کا شکار ہو جاتا ہے۔

ڈی ہائیڈریشن سے متاثر جسم کو پسینے سے خود کو ٹھنڈا کرنے میں زیادہ وقت لگتا ہے۔

اسی طرح اگر جسم بہت زیادہ گرم ہو جائے تو جِلد کے لیے خون کا بہاؤ اور پسینے کا اخراج دونوں تھم جاتے ہیں، جس سے جسمانی درجہ حرارت بڑھتا ہے اور دماغی خلیات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

پھیپھڑے

گرم موسم ہوا کے معیار پر اثرات مرتب کرتا ہے اور سانس لینا مشکل ہوتا ہے۔

زیادہ درجہ حرارت کے ساتھ عموماً ہوا تھم جاتی ہے جس سے آلودگی بھی فضا میں رک جاتی ہے۔

گاڑیوں یا دیگر صنعتی ذرائع سے خارج ہونے والی آلودہ گیسیں پھیپھڑوں کے افعال کو متاثر کرتی ہیں۔

ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ درجہ حرارت میں ہر ایک ڈگری سینٹی گریڈ اضافے سے دنیا بھر میں اضافی 22 ہزار افراد آلودگی کے باعث ہلاک ہو جاتے ہیں۔

تھکاوٹ

جب جسم گرمی کے اثرات پر قابو پانے میں ناکام ہوتا ہے اور جسمانی درجہ حرارت 38 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے تو دماغ مسلز کو سست ہونے کا حکم دیتا ہے، جس سے تھکاوٹ کا احساس ہوتا ہے۔

تھکاوٹ کے ساتھ ساتھ سر چکرانے، شدید پیاس، متلی، دل کی دھڑکن کی رفتار تیز ہونے اور اعضا سن ہونے جیسی علامات کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔

اگر جسمانی درجہ حرارت کو کنٹرول نہ کیا جائے تو پھر جسم ہیٹ اسٹروک کا شکار ہو جاتا ہے اور جان کو بھی خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔

دل

جیسے جیسے جسمانی درجہ حرارت بڑھتا ہے، ویسے ویسے خون کی شریانیں پھیلنے لگتی ہیں اور اس سے بلڈ پریشر کی سطح کم ہوتی ہے جس کے باعث سر چکرانے کا احساس ہو سکتا ہے۔

بدترین کیسز میں جسم میں خون کا بہاؤ نمایاں حد تک کم ہو جاتا ہے جس سے شریانوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے جبکہ ہارٹ اٹیک کا خطرہ بھی بڑھتا ہے۔

نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔

مزید خبریں :