23 جون ، 2024
عمر میں اضافے کے ساتھ جِلد پر بھی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور یہ قدرتی عمل ہوتا ہے۔
درمیانی عمر میں چہرے پر جھریاں نمودار ہونے لگتی ہیں اور عموماً ایسا ان حصوں میں ہوتا ہے جو چہرے کے تاثرات کے دوران متحرک رہتے ہیں۔
عمر بڑھنے سے جِلد کی موٹائی گھٹ جاتی ہے اور لچک بھی ختم ہونے لگتی ہے جس سے جھریاں نظر آنے لگتی ہیں۔
پیشانی پر بھی ایسی لکیریں بن جاتی ہیں جن کو پیشانی کی جھریاں کہا جاتا ہے۔
پیشانی پر لکیریں بھنویں اوپر کرنے سے گہری ہوتی ہیں اور انہیں عمر میں اضافے کی قدرتی نشانی تصور کیا جاتا ہے۔
عموماً یہ لکیریں پہلی بار 25 سے 30 سال کی عمر میں نمودار ہوتی ہیں مگر کچھ افراد میں یہ لکیریں جلدی یا دیر سے بھی ظاہر ہوتی ہیں، جس کا انحصار مختلف عناصر بشمول جینز اور طرز زندگی پر ہوتا ہے۔
جینز اور عمر پیشانی کی جھریوں کی 2 بنیادی وجوہات ہیں مگر اس سے ہٹ کر بھی چند دیگر عناصر اس حوالے سے کردار ادا کرتے ہیں۔
تو ان وجوہات کے بارے میں درج ذیل میں جان سکتے ہیں۔
چہرے کی لکیروں اور جھریوں کے حوالے سے جینز کا کردار نمایاں ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ چند افراد میں یہ لکیریں قبل از وقت بھی نمودار ہو جاتی ہیں۔
عمر بڑھنے کے ساتھ ہمارے جسم میں ایسے پروٹینز بننے کا عمل گھٹ جاتا ہے جو جِلد کی لچک میں کردار ادا کرتے ہیں۔
جِلد کی لچک گھٹ جانے سے وہ ڈھلکنے لگتی ہے جس کے باعث لکیریں نمودار ہو جاتی ہیں۔
مختلف تاثرات جیسے بھنویں اٹھانا، منہ بنانا یا مسکراہٹ بار بار دہرانے سے جِلد پر اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اس کے نتیجے میں مستقل لکیریں بن جاتی ہیں۔
سورج میں موجود الٹرا وائلٹ شعاعوں سے جِلد میں موجود پروٹینز کو نقصان پہنچتا ہے جس سے جِلد کی لچک گھٹ جاتی ہے اور پیشانی کی جھریاں نمودار ہو جاتی ہیں۔
جِلد کو اپنی لچک برقرار رکھنے کے لیے پانی کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے بغیر جِلد خشک ہو جاتی ہے اور پیشانی کی جھریاں زیادہ نمایاں ہو جاتی ہیں۔
تمباکو نوشی سے خون کی شریانیں سخت ہو جاتی ہیں اور خون کا بہاؤ گھٹ جاتا ہے جس سے جِلد پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ تمباکو نوشی کے عادی افراد کی جِلد پر بڑھاپے کے آثار قبل از وقت نمایاں ہو جاتے ہیں، پیشانی پر بھی جھریاں بن جاتی ہیں۔
فضائی آلودگی سے جِلد میں موجود پروٹینز پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں جس سے لچک گھٹ جاتی ہے اور جھریاں نمودار ہو جاتی ہیں۔
نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔