03 جولائی ، 2024
اگر آپ بڑھاپے میں جسمانی اور دماغی طور پر صحت مند رہنا چاہتے ہیں تو ابھی سے اچھی غذاؤں کا استعمال عادت بنالیں۔
یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
ہارورڈ اسکول آف پبلک ہیلتھ کی تحقیق میں بتایا گیا کہ درمیانی عمر میں اچھی غذاؤں کے استعمال سے بڑھاپے میں اچھی جسمانی اور دماغی صحت کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
اس تحقیق میں ایک لاکھ 6 پزار سے زائد افراد کو شامل کیا گیا تھا۔
ان افراد کی غذائی عادات اور صحت کے 30 سالہ ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی۔
1986 میں تحقیق کے آغاز میں ان افراد کی عمریں کم از کم 39 سال تھی اور وہ سب دائمی امراض سے محفوظ تھے۔
ہر 4 سال کے بعد ان سے غذاؤں کی تفصیلات سوالنامے کے ذریعے حاصل کی گئیں اور یہ سلسلہ 2010 تک جاری رہا۔
محققین نے ہر فرد کی غذائی عادات کا جائزہ لیا تاکہ معلوم ہوسکے کہ وہ کس حد تک صحت کے لیے مفید غذاؤں کا استعمال کرتے ہیں۔
30 سالہ تحقیق کے دوران 50 فیصد کے قریب افراد انتقال کر گئے تھے جبکہ صرف 9 فیصد ایسے تھے جو 70 سال یا اس سے زائد عمر کے بعد بھی دائمی امراض سے محفوظ تھے جبکہ ان کی جسمانی اور دماغی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب نہیں ہوئے تھے۔
نتائج سے معلوم ہوا کہ درمیانی عمر میں پھلوں، سبزیوں، سالم اناج، صحت کے لیے مفید چکنائی، گریوں، پھلیوں اور کم چکنائی والی دودھ کی مصنوعات کے استعمال سے بڑھاپے میں اچھی جسمانی اور دماغی صحت کو برقرار رکھنے میں مدد ملتی ہے۔
اس کے مقابلے میں جو افراد ٹرانس فیٹس، نمک، سرخ اور پراسیس گوشت کا زیادہ استعمال کرتے ہیں، انہیں بڑھاپے میں ناقص صحت اور دائمی امراض کا سامنا ہوتا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ صحت کے لیے مفید غذاؤں کے استعمال سے بڑھاپے میں اچھی صحت برقرار رکھنے کا امکان 43 سے 84 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔
محققین نے تسلیم کیا کہ یہ تحقیق کچھ پہلوؤں سے محدود تھی کیونکہ اس میں لوگوں کی جانب سے بتائی گئی غذائی عادات پر انحصار کیا گیا۔
مگر انہوں نے کہا کہ متعدد تحقیقی رپورٹس میں یہ ثابت ہوچکا ہے کہ اچھی غذاؤں اور جسمانی سرگرمیوں سے متعدد دائمی امراض سے بچنے میں مدد ملتی ہے جس سے بڑھاپے میں صحت مند رہنا ممکن ہو جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صحت کے لیے مفید غذاؤں کا استعمال کرنے والے اکثر ورزش کرنے کے بھی عادی ہوتے ہیں جبکہ سماجی میل جول پسندکرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ درمیانی عمر میں آپ کی غذائی عادات اور بڑھاپے کی اچھی یا ناقص صحت کے درمیان تعلق موجود ہے۔
اس تحقیق کے نتائج امریکن سوسائٹی فار نیوٹریشن کی سالانہ کانفرنس کے دوران پیش کیے گئے۔