26 جولائی ، 2024
موجودہ عہد میں اسمارٹ فونز کا استعمال بہت زیادہ عام ہوچکا ہے اور لوگ اپنا زیادہ وقت ان ڈیوائسز پر مختلف ایپس استعمال کرتے ہوئے گزارتے ہیں۔
مگر کیا آپ کو معلوم ہے کہ ان ڈیوائسز سے خارج ہونے والی نیلی روشنی آپ کی جِلد کے لیے تباہ کن ثابت ہوتی ہے؟
جی ہاں واقعی اسمارٹ فونز یا دیگر ایسی ڈیوائسز سے خارج ہونے والی نیلی روشنی سے جِلد کی صحت کو نقصان پہنچتا ہے اور جھریوں سمیت بڑھاپے کی دیگر علامات ابھرنے لگتی ہیں۔
سورج کی روشنی کے مقابلے میں اسمارٹ فون، لیپ ٹاپ، ٹی وی سے خارج ہونے والی روشنی کی سطح 100 سے ایک ہزار گنا کم ہوتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ان ڈیوائسز سے خارج ہونے والی نیلی روشنی نیند اور بینائی کے ساتھ ساتھ جِلد پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
تو یہ نیلی روشنی جِلد پر کیسے اثر انداز ہوتی ہے، اس بارے شواہد سے جو کچھ معلوم ہوا ہے وہ درج ذیل ہے۔
تحقیقی رپورٹس سے عندیہ ملا ہے کہ اسمارٹ فونز کی نیلی روشنی سے میلانین بننے کا عمل متحرک ہوتا ہے۔
یہ جِلد کے قدرتی رنگت کو برقرار رکھنے والے مرکبات ہیں مگر جب یہ بہت زیادہ مقدار میں بننے لگتے ہیں تو جِلد پر گہرے رنگے کے دھبے یا ڈارک اسپاٹس بن جاتے ہیں۔
کچھ تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا کہ ڈیوائسز کی نیلی روشنی سے کولیگن نامی پروٹین کو نقصان پہنچتا ہے۔
یہ پروٹین جِلد کی ساخت کے لیے اہم ترین ہوتا ہے اور اس کی کمی سے جوانی میں ہی چہرے پر جھریاں ظاہر ہو جاتی ہیں۔
ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ ڈیوائسز کو روزانہ اپنی جِلد کے قریب محض ایک گھنٹے تک رکھنے سے بھی ایسا ہو سکتا ہے۔
اگر آنکھوں کے گرد موجود جِلد ڈھلکنے لگی ہے یا سیاہ حلقے نمایاں ہوگئے ہیں تو اس کی وجہ بھی ڈیوائسز سے خارج ہونے والی نیلی روشنی ہوسکتی ہے۔
نیلی روشنی سے نیند متاثر ہوتی ہے جس سے آنکھوں کے گرد حلقے اور دیگر علامات نظر آنے لگتی ہیں۔
یہ نیلی روشنی اچھی نیند کو یقینی بنانے والے ہارمون میلاٹونین بننے کے عمل کو متاثر کرتی ہے جس کے باعث لوگ بے خوابی کے شکار ہو جاتے ہیں۔
خاص طور پر سونے سے کچھ دیر قبل اسمارٹ فون استعمال کرنے سے سونا مشکل ہوتا ہے جبکہ نیند کا معیار بھی گھٹ جاتا ہے۔
نیند کی کمی سے آنکھوں کے حلقوں کے ساتھ ساتھ دیگر جِلدی امراض جیسے چنبل کا خطرہ بھی بڑھتا ہے۔
نیند کی کمی سے جسم میں ہارمون بڑھانے والے ہارمون کورٹیسول کی سطح بھی بڑھ جاتی ہے جو کولیگن کے افعال متاثر کرتی ہے۔
نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔