25 جولائی ، 2024
عمر کے ساتھ ہر فرد کے دماغ میں تبدیلیاں آتی ہیں اور ذہنی افعال بھی تبدیل ہوتے ہیں۔
عمر بڑھنے کے ساتھ دماغ تنزلی کا شکار ہونے لگتا ہے اور اس کا نتیجہ بڑھاپے میں الزائمر اور ڈیمینشیا جیسے امراض کی شکل میں بھی نکل سکتا ہے۔
تحقیقی رپورٹس کے مطابق عمر بڑھنے کے ساتھ دماغی افعال کی رفتار سست ہو جاتی ہے جبکہ کچھ دماغی حصے سکڑ جاتے ہیں۔
مگر کچھ عادات دماغی عمر میں تیزی سے اضافہ کرتی ہیں جس سے ذہنی تنزلی کا خطرہ بڑھتا ہے۔
حیران کن طور پر یہ عادات بہت عام ہیں اور بیشتر افراد انہیں بے ضرر تصور کرتے ہیں۔
عمر میں اضافے کے ساتھ لوگوں سے میل جول میں کمی آنے لگتی ہے مگر دماغی صحت کو بہتر بنانے کے لیے سماجی میل جول بہت اہم ہوتا ہے۔
ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ دوستوں یا رشتے داروں سے ملنے سے دماغی افعال میں تنزلی کا خطرہ 47 فیصد تک گھٹ جاتا ہے۔
لوگوں سے ملنے جلنے سے تناؤ کم ہوتا ہے جبکہ تنہائی کا احساس ختم ہوتا ہے، یہ دونوں عناصر دماغی عمر کی رفتار سست کر دیتے ہیں۔
درحقیقت نئے لوگوں سے ملنے پر بھی دماغی خلیات کے افعال بہتر ہوتے ہیں جبکہ مزاج بھی خوشگوار ہو جاتا ہے جس سے بھی دماغی صحت بہتر ہوتی ہے۔
اگر آپ کی زندگی یکساں معمولات کے تحت گزر رہی ہے تو اس کے نتیجے میں دماغی عمر میں بہت تیزی سے اضافہ ہوتا ہے۔
دماغ کو مصروف رکھنا ضروری ہوتا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ خیال بھی رکھنا چاہیے کہ پرانی کے ساتھ ساتھ نئی سرگرمیوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔
نئی سرگرمیوں کا حصہ بننے سے دماغی خلیات کے افعال بہتر ہوتے ہیں اور دماغ کو جوان رکھنے میں مدد ملتی ہے۔
تناؤ روزمرہ کی زندگی کا ایک حصہ ہے اور ہمارا جسم پرتناؤ حالات یا واقعے کے بعد خود کو ٹھیک کرلیتا ہے۔
مگر جب تناؤ دائمی ہو جائے تو اس کے نتیجے میں دماغی عمر میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہے۔
گہری سانسیں لینے، مطالعہ کرنے یا اپنے پسندیدہ مشاغل سے آپ تناؤ پر قابو پاسکتے ہیں۔
غذا میں زیادہ چکنائی اور میٹھے کے استعمال دماغی افعال کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔
فاسٹ یا جنک فوڈ میں چکنائی اور شکر کی مقدار کافی زیادہ ہوتی ہے اور موجودہ عہد میں فاسٹ فوڈ کا استعمال بہت زیادہ عام ہوچکا ہے۔
الٹرا پراسیس غذاؤں کے زیادہ استعمال سے مختلف دماغی امراض جیسے ڈیمینشیا کا خطرہ بڑھتا ہے۔
اس کے مقابلے میں پھلوں، سبزیوں، دالوں، مچھلی اور زیتون کے تیل جیسی مخصوص غذائیں دماغ کے لیے بہترین ہوتی ہیں۔
روزانہ ایک کپ چائے یا کافی پینے سے بھی دماغ کو فائدہ ہوتا ہے۔
جب آپ نیند کی کمی کے شکار ہوتے ہیں تو دماغ کے لیے عام کام کرنا بھی بہت مشکل ہو جاتا ہے۔
نیند کی کمی کے شکار ہونے پر توجہ مرکوز کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے جبکہ یادداشت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
تو اچھی دماغی صحت کے لیے روزانہ 7 سے 9 گھنٹے نیند ضروری ہوتی ہے۔
بہت زیادہ وقت بیٹھ کر گزارنے سے دماغ کے اس حصے میں تبدیلیاں آتی ہیں جو یادداشت کے لیے بہت اہم تصور کیا جاتا ہے۔
تحقیقی رپورٹس میں بتایا گیا کہ زیادہ وقت بیٹھ کر گزارنے سے یادداشت میں مدد فراہم کرنے والا medial temporal lobe نامی دماغی حصہ پتلا ہو جاتا ہے۔
تو اس کا آسان حل یہی ہے کہ جسم کو زیادہ سے زیادہ حرکت دینے کی کوشش کریں۔
نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔