04 ستمبر ، 2024
حال ہی میں ہیما کمیٹی کی رپورٹ نے ملیالم فلم انڈسٹری میں جنسی ہراسانی اور کاسٹنگ کاؤچ کے واقعات کو بے نقاب کیا ہے۔
اس معاملے پر بات کرتے ہوئے بالی وڈ اداکارہ تنوشری دتہ نے اپنی ذاتی کہانی شیئر کی ہے اور انہوں نے اداکار نانا پاٹیکر کی جانب سے جان سے مارنے کی کوششوں اور ساؤتھ فلم انڈسٹری کی مردانہ غلبہ والی سوچ پر سوالات اٹھائے ہیں۔
یاد رہے کہ 2018 میں تنوشری نے #MeToo تحریک کے تحت نانا پاٹیکر، کوریوگرافر گنیش آچاریہ اور ڈائریکٹر وویک اگنی ہوتری پر جنسی ہراسانی کے الزامات عائد کیے تھے۔
تنوشری دتہ نے اپنی گفتگو میں کہا کہ شروع میں انہیں سمجھ نہیں آیا کہ یہ رپورٹ کیا ہے۔ انہوں نے سوچا کہ شاید یہ رپورٹ بھی وشاکھا کمیٹی جیسی ہوگی، جس کے قوانین کا زیادہ عمل نہیں ہوا۔ لیکن جب انہوں نے رپورٹ کو سمجھا تو انہیں معلوم ہوا کہ یہ رپورٹ فلم انڈسٹری کے کام کرنے کے طریقوں پر روشنی ڈالتی ہے، اور یہ ایک اچھی بات ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس رپورٹ کو بنانے میں 6،7 سال کیوں لگے؟ حالات تو روز بدلتے رہتے ہیں، ایسی رپورٹس جلدی آنی چاہئیں۔ پھر بھی، وہ خوش ہیں کہ یہ رپورٹ تیار کی گئی ہے۔
تنوشری نے مطالبہ کیا کہ بالی وڈ پر بھی ایسی رپورٹ بننی چاہیے تاکہ لوگ انڈسٹری میں آنے سے پہلے اپنی تیاری کر سکیں۔
تنوشری نے ساؤتھ فلم انڈسٹری کو مردانہ غلبہ والی انڈسٹری قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ساؤتھ کی فلموں کے کچھ مناظر دیکھے اور حیران رہ گئیں۔ انہوں نے کہا کہ ساؤتھ کی فلموں میں اب بھی چھیڑ چھاڑ اور ریپ کے مناظر دکھائے جاتے ہیں، جو کہ ناقابل قبول ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ساؤتھ کے بڑے ہیروز کو ایسے مناظر کرنے سے انکار کرنا چاہیے تاکہ ایسے مناظر بننے ہی بند ہو جائیں۔
نانا پاٹیکر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے تنوشری نے کہا کہ ایسے لوگ بہت خطرناک ہوتے ہیں اور وہ کسی کا بھی قتل کروا سکتے ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ نانا پاٹیکر نے انہیں بہت پریشان کیا اور ان کے خلاف تشدد کی کوششیں کی گئیں، جیسے کہ انہیں ڈرانے کے لیے غنڈے بھیجے گئے، ان کا حادثہ کروانے کی کوشش کی گئی، اور یہاں تک کہ ان کے گھر میں ملازمہ کے ذریعے کھانے پینے کی چیزوں میں زہر ملانے کی کوشش کی گئی۔
تنوشری نے کہا کہ #MeToo تحریک کے بعد انہوں نے کچھ تبدیلیاں ضرور دیکھی ہیں، لیکن جو بڑے مجرم ہیں، ان کا ابھی بھی غرور قائم ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے لوگوں کے لیے سخت قوانین بننے چاہئیں اور انہیں سزا ملنی چاہیے تاکہ وہ دوبارہ ایسے جرائم کرنے کی ہمت نہ کریں۔
خیال رہے کہ ملیالم فلم انڈسٹری میں اداکاراؤں کے جنسی استحصال پر جاری ہونے والی ہیما کمیٹی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ انڈسٹری میں خواتین کا سب سے بڑا مسئلہ جنسی طور پر ہراساں کرنا ہے اور کئی خواتین اس بارے میں کھل کر بات کرنے سے ڈرتی ہیں کیونکہ انہیں ڈر ہے اگر اس حوالے سے کچھ کہا تو انڈسٹری پابندی لگا دے گی اور کوئی کام نہیں دے گا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انڈسٹری میں خواتین کو ہراساں کرنا عام سی بات ہے، ڈائریکٹر، پروڈیوسر سے لے کر پروڈکشن کنٹرولر تک اس میں شامل ہیں، ملیالم فلم انڈسٹری میں ایڈجسٹمنٹ اور سمجھوتہ بہت عام الفاظ ہیں اور شواہد کی بنیاد پر یہ ماننا پڑا کہ انڈسٹری کے بڑے نام بھی اس میں ملوث ہیں۔