Time 07 اکتوبر ، 2024
دنیا

موسمیاتی تبدیلیوں سے دنیا بھر میں دریا تیزی سے خشک ہونے لگے

موسمیاتی تبدیلیوں سے دنیا بھر میں دریا تیزی سے خشک ہونے لگے
عالمی موسمیاتی ادارے کی رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا / اے پی فوٹو

موسمیاتی تبدیلیوں سے دنیا میں کافی کچھ تبدیل ہورہا ہے اور اب اس کے ایک اور تشویشناک اثر کا انکشاف ہوا ہے۔

گزشتہ 3 دہائیوں کے دوران دنیا بھر میں دریاؤں بہت زیادہ تیز رفتاری سے خشک ہوئے ہیں جس سے عالمی سطح پر پانی کی سپلائی کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔

عالمی موسمیاتی ادارے (ڈبلیو ایم او) کی اسٹیٹ آف گلوبل واٹر ریسورسز رپورٹ میں بتایا گیا کہ گزشتہ 5 سال کے دوران دنیا بھر میں دریاؤں میں پانی کی سطح اوسط سے کم رہی۔

2023 میں 50 فیصد سے زیادہ عالمی دریاؤں کے طاس کی صورتحال غیرمعمولی رہی اور زیادہ تر میں پانی کی کمی دیکھنے میں آئی۔

ایسا ہی کچھ 2022 اور 2021 میں بھی دیکھنے میں آیا جس کے باعث متعدد علاقوں کو خشک سالی کا سامنا ہوا اور دریاؤں میں پانی کی روانی گھٹ گئی۔

مثال کے طور پر دریائے ایمازون اور دریائے Mississippi میں پانی کی سطح میں ریکارڈ کمی آئی۔

ایشیا میں گنگا اور میکانگ جیسے بڑے دریاؤں میں پانی کی کمی ریکارڈ ہوئی۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں پانی کے بہاؤ میں تبدیلیاں آئی ہیں جبکہ شدید سیلاب اور قحط سالی جیسے مسائل بڑھے ہیں۔

2023 دنیا کی تاریخ کا گرم ترین سال تھا جس دوران دریاؤں میں پانی کا بہاؤ کم رہا اور متعدد ممالک کو خشک سالی کا سامنا ہوا۔

ڈبلیو ایم او کے مطابق موسمیاتئ تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ دیگر وجوہات جیسے 2023 میں ایل نینو کے آغاز سے بھی دریاوں کی سطح پر اثرات مرتب ہوئے۔

ایل نینو ایک ایسا موسمیاتی رجحان ہے جس کے نتیجے میں بحرالکاہل کے پانی کا بڑا حصہ معمول سے کہیں زیادہ گرم ہوجاتا ہے اور زمین کے مجموعی درجہ حرارت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

اس کے مقابلے میں لانینا کے دوران بحر الکاہل کا درجہ حرارت کم ہوتا ہے۔

مگر سائنسدانوں کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ان موسمیاتی رجحانات کے اثرات کی شدت بھی بڑھ گئی ہے اور اب موسموں کے اثرات کی پیشگوئی کرنا مشکل ہوگیا ہے۔

ڈبلیو ایم او کی سیکرٹری جنرل Celeste Saulo نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے پانی پر سب سے زیادہ اثرات مرتب ہوئے ہیں، ہمیں بہت زیادہ بارشوں، سیلاب اور خشک سالی سے تباہ کن اثرات کے اشارے ملے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ برف پگھلنے کی رفتار بڑھنے سے طویل المعیاد بنیادوں پر پانی کی فراہمی متاثر ہونے کا خطرہ بڑھا ہے اور ہم نے اب تک ضروری اقدامات بھی نہیں کیے۔

ان کا کہنا تھا کہ درجہ حرارت میں اضافے سے آبی چکر کی رفتار بڑھ گئی ہے، یہ زیادہ ناقابل پیشگوئی ہوگیا ہے اور ہمیں بہت زیادہ یا بہت کم پانی جیسے مسائل کا سامنا ہو رہا ہے، گرم فضا میں نمی زیادہ ہوتی ہے جس سے شدید بارشیں ہوتی ہیں جبکہ زمین تیزی سے خشک ہوتی ہے جس سے خشک سالی کی شدت بڑھ جاتی ہے۔

ایک تخمینے کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 3 ارب 60 کروڑ افراد کو ہر سال کم از کم ایک ماہ تک ناکافی مقدار میں پانی دستیاب ہوتا ہے، یہ تعداد 2050 تک 5 ارب سے تجاوز کرسکتی ہے۔

مزید خبریں :