24 نومبر ، 2024
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں احتجاج کیلئے پاکستان تحریک انصاف کا پشاور سے نکلنے والا قافلہ عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کی قیادت میں حضرو انٹرچینج پہنچ گیا۔
پاکستان تحریک انصاف کے احتجاج کے پیش نظر حکومت نے اسلام آباد کے راستے بند کر دیے ہیں اور دارالحکومت کو جانے والے زيادہ تر راستوں پر کنٹیرز کھڑے کر دیے گئے ہیں۔
چھبیس نمبر چُنگی کنٹینر لگا کر مکمل سیل کر دی گئی ہے اور وہاں رینجرز کو تعینات کر دیا گیا ہے جبکہ سری نگر ہائی وے بھی زیرو پوائنٹ کے مقام پر بند کر دی گئی ہے۔
ایکسپریس وے بھی کھنہ پل کے مقام پر دونوں طرف سے بند کر دی گئی ہے۔ کھنہ پل پر رکھے گئے ایک کنٹینر میں آگ بھڑک اٹھی تاہم اس کی وجہ معلوم نہ ہو سکی۔ ائیر پورٹ جانے والے راستے پر بھی کنٹینرز لگا دیے گئے ہیں جبکہ فیض آباد سے اسلام آباد کا راستہ بھی بند کر دیا گیا ہے۔
راولپنڈی پولیس نے فیض آباد آئی جے پی روڈ پر پی ٹی آئی کارکنوں پر لاٹھی چارج کیا اور 60 کے قریب کارکنان کو گرفتار کرلیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ آئی جے پی روڈ پر پی ٹی آئی کے 100 سے 150 کارکن موجود تھے جنہیں منشتر کیا گیا۔
دوسری جانب پی ٹی آئی رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ پنجاب کے مختلف شہروں سے اب تک 490 کارکنوں اور رہنماؤں کو گرفتار کیا جا چکا ہے جبکہ 100 لاپتہ ہیں۔
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور پشاور سے قافلے کی صورت میں صوابی کے لیے روانہ ہوئے جہاں دیگر علاقوں سے بھی قافلے جمع ہوئے۔
اسلام آباد میں احتجاج کے لیے پی ٹی آئی کا قافلہ بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈا پور کی قیادت میں حضرو انٹرچینج پہنچ گیا۔ پی ٹی آئی رہنماوں کا کہنا ہے کہ قافلے کی قیادت علی امین گنڈا پور کر رہے ہيں، بشریٰ بی بی کی گاڑی قافلے میں شریک ہیں۔
دوسری جانب سرکاری ذرائع کا بتانا ہے کہ بشریٰ بی بی بھی پی ٹی آئی کے احتجاجی قافلے میں شامل ہیں تاہم بشریٰ بی بی الگ گاڑی میں سوار ہیں۔
دوسری جانب احتجاج میں شرکت کے لیے آنے والے پی ٹی آئی کے کارکنوں کے خلاف ملک کے مختلف شہروں میں کریک ڈاؤن کیا گیا، ارکان اسمبلی عامر ڈوگر، زین قریشی، معین ریاض ، ایم پی اے بشارت ڈوگر، انفارمیشن سیکرٹری حافظ ذیشان اور صداقت عباسی سمیت سیکڑوں کارکن گرفتار کرلیے گئے۔
اڈیالہ جیل کی طرف جانے والے راستوں مکمل طور پر سیل کر دیا گیا ہے جبکہ جیل جانے والی مرکزی شاہراہ کو ہر طرح کی ٹریفک کیلئے بند کر دیا گیا ہے۔
اڈیالہ جیل روڈ پر جگہ جگہ پولیس کی نفری تعینات کر دی گئی ہے اور جیل جانے والے راستے پر کنٹینرز کھڑے کر دیے گئے ہیں، اڈیالہ روڈ بند ہونے سے رہائشیوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
اس حوالے سے پولیس حکام کا کہنا ہے کہ اڈیالہ جیل کی طرف کسی بھی مظاہرے کی اجازت نہیں ہے۔
مظاہرین کو اسلام آباد میں داخلے سے روکنے کیلئے مختلف انٹری پوائنٹس پر 6 ہزار پولیس اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ راولپنڈی اور اسلام آباد کو ملانے والے 70 مقامات کی سی سی ٹی وی کیمروں سے نگرانی کی جائے گی، کسی کو بھی مظاہرے، ریلی یا احتجاج کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
راولپنڈی اسلام آباد میٹرو بس سروس بھی معطل ہے جبکہ پمز سے بارہ کہو تک گرین لائن سروس بھی بند کر دی گئی ہے۔
اس کے علاوہ راولپنڈی اور اسلام آباد میں انٹرنیٹ اور موبائل فون کی سروس بھی متاثر ہے، اس حوالے سے وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ سکیورٹی خدشات والے علاقوں میں موبائل ڈیٹا، وائی فائی سروس بندش کا تعین کیا جائے گا۔
خیبر پختونخوا سے آنے والے قافلوں کو روکنے کے لیے اٹک خورد کے مقام پر پنجاب اور خیبر پختونخوا کی سرحد مکمل بند کر دی گئی ہے، اٹک میں چیک پوسٹیں قائم کر دی گئی ہیں، سکیورٹی اہلکاروں کو بھاری نفری کو تعینات کر کے شیلنگ کے لیے ہزاروں گولے، جیکٹس، ہیلمنٹ اور ڈنڈوں سے لیس کر دیا گیا ہے۔
جہلم کی اہم شاہراہوں پر بھی کنٹینر کھڑے کر دیے گئے ہیں اور فیصل آباد کے داخلی راستے بھی بند ہیں۔ لاہور، پشاور اور فیصل آباد سے اسلام آباد کے لیے جانے والی موٹر ویز بھی بند کردی گئيں۔
تحریک انصاف کے احتجاج کے پیش نظر مری کے مختلف داخلی اور خارجی راستوں پر کنٹینرز لگا دیے گئے ہیں جس کے باعث ملکہ کوہسار مری کا خیبرپختونخوا اور کشمیر سے زمینی راستہ منقطع ہوگیا ہے۔
انتظامیہ نے کشمیر اور کے پی کی رابطہ سڑکوں پر خندقیں کھود دی ہیں جبکہ مری میں گھوڑا گلی کے مقام پر بھی مٹی ڈال کر سڑک بند کر دی گئی ہے۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف نے بھی آج کے احتجاج کے لیے حکمت عملی فائنل کر لی ہے، وزیر اعلیٰ کے پی علی امین گنڈا پور آج سہ پہر 3 بجے صوابی پہنچیں گے، دیگر قافلوں کو بھی 3 بجے پہنچنے کی ہدایات کی گئی ہے۔
ذرائع کے مطابق وزیر اعلیٰ ہاؤس پشاور کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ کارکنان، قائدین، ایم این ایز اور ایم پی ایز الگ الگ پہنچنےکی کوشش کریں گے۔
حکومت سے بات چیت نہیں کی جائے گی بلکہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کی رہائی پر احتجاج سے واپسی ہو گی، وائر لیس سمیت دیگر ضروری اشیا ساتھ لے کر جانے کی ہدایات کی گئی ہے۔
وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے جیو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ آج احتجاج ہوگا اور اسلام آباد جائیں گے، کے پی سے احتجاج میں شامل تمام قافلوں کو وہ خود لیڈ کریں گے، بانی پی ٹی آئی کی رہائی اور دیگر مطالبات پورے ہونے تک احتجاج جاری رہے گا۔
ادھر حکومت نے بھی پی ٹی آئی کے احتجاج کو روکنے کے لیے حکمت عملی مرتب کر لی ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر کا کہنا ہے کہ خان صاحب (عمران خان) ہمارے باس ہیں، ان کی کال فائنل کال ہے، کال صرف بانی پی ٹی آئی ہی واپس لے سکتے ہیں۔
گزشتہ روز اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم پر وزیر داخلہ محسن نقوی نے چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر سے رابطہ کرکے احتجاج روکنے کا کہا تھا۔ محسن نقوی نے خبردار کیا تھا کہ قانون ہاتھ میں لینے والا کوئی شخص اسلام آباد سے واپس نہیں جا پائے گا۔
وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے اگر یہ لوگ مسلح جتھے اور لشکر لے کر آرہے ہيں تو حکومت بھی اسی طرح ان کا مقابلہ کرے گی۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا یہ لوگ لاشوں کی سیاست کرنا چاہتے ہیں، وزیراعلیٰ منصوبہ بندی کے تحت بندے مروانا چاہتے ہیں، اس چیز کو حکومت کی کم زوری نہ سمجھا جائے۔
دوسری جانب وزیر اطلاعات عطا تارڑ کا کہنا ہے کہ جو بھی احتجاج کے لیے اسلام آباد آئے گا پکڑا جائے گا۔