Time 20 دسمبر ، 2024
صحت و سائنس

آپ کی وہ عام عادت جو گردوں کے تکلیف دہ امراض کا شکار بنادیتی ہے

آپ کی وہ عام عادت جو گردوں کے تکلیف دہ امراض کا شکار بنادیتی ہے
گردوں کے امراض بہت تکلیف دہ ہوتے ہیں / فائل فوٹو

گردے خون کو فلٹر کرتے ہیں جس کے دوران زہریلے مواد اور اضافی سیال کو جسم سے خارج کرتے ہیں جبکہ پوٹاشیم، سوڈیم اور دیگر اجزا کی سطح کو متوازن رکھتے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ گردے ایسے ہارمونز بھی بناتے ہیں جو بلڈ پریشر سے لے کر ہڈیوں کی مضبوطی کے حوالے سے اہم کردار ادا کرتے ہیں، آسان الفاظ میں گردے بہت اہم ہوتے ہیں۔

ایک تخمینے کے مطابق دنیا بھر میں ہر 10 میں سے ایک فرد کو گردوں کے دائمی امراض کا سامنا ہوتا ہے جس کے نتیجے میں سیال اور دیگر مواد جسم میں اکٹھا ہونے لگتا ہے۔

گردوں کے امراض بہت تکلیف دہ ہوتے ہیں اور اس کے شکار کروڑوں مریضوں کو طویل المعیاد بنیادوں پر اپنا علاج کرانا پڑتا ہے۔

اب طبی ماہرین نے گردوں کے امراض پھیلنے کی ایک اہم ترین وجہ دریافت کی ہے۔

اگر آپ چینی یا مصنوعی مٹھاس پر مبنی مشروبات پینا پسند کرتے ہیں تو یہ عادت گردوں کے دائمی امراض کا شکار بنا سکتی ہے۔

یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

جرنل فرنٹیئرز ان نیوٹریشن میں شائع تحقیق ایک لاکھ 91 ہزار سے زائد افراد کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی۔

ان افراد کی صحت کا جائزہ اوسطاً ساڑھے 10 سال سے زائد عرصے تک لیا گیا اور اس دوران دیکھا گیا کہ مصنوعی مٹھاس اور چینی پر مبنی مشروبات کے استعمال سے گردوں کے دائمی امراض کا خطرہ کتنا بڑھتا ہے۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ روزانہ ایک بار ان مشروبات کا استعمال کرنے والے افراد میں گردوں کے دائمی امراض سے متاثر ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

اس کے مقابلے میں تازہ پھلوں کے جوسز سے یہ خطرہ زیادہ نہیں بڑھتا۔

تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ مصنوعی مٹھاس اور چینی سے بنے مشروبات کے زیادہ استعمال سے میٹابولک سینڈروم سے متاثر ہونے کا خطرہ بالترتیب 18 فیصد اور 12.5 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

میٹابولک سینڈروم ہائی بلڈ پریشر، کولیسٹرول، ہائی بلڈ شوگر اور خون میں چکنائی بڑھنے جیسے امراض کے مجموعے کو کہا جاتا ہے، جس سے امراض قلب، ذیابیطس اور موت کا خطرہ بڑھتا ہے۔

محققین نے بتایا کہ نتائج سے واضح ہوتا ہے کہ مصنوعی مٹھاس یا چینی پر مبنی مشروبات کے استعمال کو محدود کرنا چاہیے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ نتائج کی تصدیق کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

مزید خبریں :