27 جنوری ، 2025
بالی وڈ اداکار سیف علی خان پر چاقو حملے کیس میں پولیس کی جانب سے ایک غلطی نے بھارتی شہری کی زندگی مشکل بنا دی۔
16 جنوری کو رات 3 بجے کے قریب سیف علی خان کے ممبئی کے باندرا والے گھر میں ڈکیتی کی کوشش کی گئی جسے اداکار نے مزاحمت کرکے ناکام بنایا۔
مزاحمت کے دوران سیف علی خان پر چاقو سے حملہ کیا گیا جس سے انہیں 6 زخم آئے جن میں سے 2 کافی گہرے تھے جبکہ ایک زخم ریڑھ کی ہڈی کے قریب ترین تھا۔
واقعہ کے بعد پولیس نے ملزم کی گرفتاری کے لیے 10 ٹیمیں تشکیل دیں، ملازموں اور عمارت میں کام کرنے والے مزدوروں کو حراست میں لے کر تفتیش کی گئی۔
اس دوران پولیس کی جانب سے سی سی ٹی وی فوٹیج سے حاصل کردہ مبینہ ملزم کی تصویر بھی جاری کی گئی۔
جس کے بعد 18 جنوری کو ممبئی پولیس نے سی سی ٹی وی فوٹیج کی بنیاد پر چھتیس گڑھ سے ٹرین میں سفر کے دوران 31 سالہ آکاش کنوجیا کو گرفتار کیا اور اسے مبینہ طور پر سیف علی خان پر حملے میں ملوث قرار دیا۔
تاہم بعد ازاں تحقیقات کے دوران یہ معلوم ہوا کہ یہ گرفتار شخص سیف علی خان پر حملے میں ملوث نہیں اور پھر اسے رہا کردیا گیا جس کے بعد پولیس نے ایک بار پھر کارروائی کرتے ہوئے مرکزی ملزم کی گرفتاری کا دعویٰ کیا۔
ممبئی پولیس نے بتایا کہ ملزم کا تعلق بنگلا دیش سے ہے جو ڈکیتی کے لیے اداکار کے گھر داخل ہوا تھا، گرفتار ملزم کی شناخت 30سالہ محمد شریف الاسلام شہزاد کے نام سے ہوئی۔
غلط شناخت کیے جانے پرگرفتار ہونے والے 31 سالہ آکاش کنوجیا کو پولیس کی اس غلطی کا بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔
آکاش کنوجیا (جو پیشے سے ممبئی میں ایک ٹور کمپنی میں بطور ڈرائیور کام کرتا تھا) نے بھارتی میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ 18 جنوری کو اپنی بیمار دادی اور اپنے رشتے کے لیے لڑکی کے گھر اس کے والدین سے ملنے کے لیے بلاس پور جا رہا تھا کہ جب ریلوے پروٹیکشن فورس کے افسران نے اسٹیشن پر اسے حراست میں لیا۔
آکاش نے بتایا کہ گرفتاری کے بعد اس کی تصاویر ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر وسیع پیمانے پر پھیلائی گئیں کہ یہ سیف علی خان پر حملے میں ملوث ہے۔
آکاش نے کہا کہ میں نے پولیس کو بتایا کہ میرا سیف علی خان پر حملے سے کوئی تعلق نہیں ہے، میں نے پولیس سے کہا کہ وہ میرے گھر کے قریب نصب سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھ سکتے ہیں تاکہ ان کے شکوک و شبہات دور ہو سکیں لیکن انہوں نے میری بات پر توجہ نہیں دی بلکہ میری تصاویر لیں اور میڈیا پر چلا دیں، یہ دعویٰ کیا کہ میں حملہ آور ہوں۔
آکاش نے بتایا کہ بعد ازاں پولیس نے تھانے سے شریف الاسلام شہزاد کو گرفتار کیا اور پھر دعویٰ کیا کہ وہ اصل حملہ آور ہے جس کے بعد19 جنوری کو مجھے رہا کر دیا گیا۔
31 سالہ آکاش کنوجیا نے بتایا کہ تصاویر وائرل ہونے کے بعد اسے اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑا اور ذاتی زندگی میں بھی دھچکا لگا کیونکہ لڑکی کے گھر والوں نے رشتہ کرنے سے انکار کر دیا۔
اس نے بتایا کہ رہائی کے بعد جب میں نے اپنی والدہ سے بات کی تو وہ بہت پریشان تھیں کیونکہ میری تصاویر تمام نیوز چینلز پر دکھائی جا رہی تھیں اور انہوں نے مجھ سے فوراً گھر واپس آنے کو کہا۔ اگلے دن، جب میں نے اپنے دفتر فون کیا تو انہوں نے مجھے کام پر آنے سے روکتے ہوئے کہا کہ تم قانونی مسائل میں ہوں اور ہم تہماری وجہ سے کسی مسئلے میں نہیں پڑنا چاہتے۔ میں نے انہیں معاملہ سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ سننے کو تیار نہیں تھے اور میری نوکری چلی گئی۔
آکاش نے بتایا کہ اسی دوران اس کی دادی کا فون آیا جنہوں نے اسے بتایا کہ اس تمام واقعے کے بعد لڑکی کے خاندان نے رشتہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
آکاش نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک طویل عرصے کے بعد اس کی زندگی کے معاملات بہتر ہو رہے تھے لیکن اس کی غلط گرفتاری نے سب کچھ بدل دیا۔
اس نے کہا کہ پولیس ایک سادہ سی چیز نوٹ کرنے میں ناکام رہی کہ میری مونچھیں ہیں جبکہ سیف علی خان کے گھر میں لگے سی سی ٹی وی کیمرے میں نظر آنے والے شخص کی مونچھیں نہیں تھیں، اس کے باوجود، مجھے اتنی آزمائش سے گزرنا پڑا۔
آکاش نے درخواست کی کہ وہ تمام تصاویر جس میں اسے مبینہ حملہ آور کے طور پر ظاہر کیا گیا انہیں انٹرنیٹ سے ہٹادیا جائے تاکہ وہ مزید کسی پریشانی میں نہ پھنس جائے۔
واضح رہے کہ سیف علی خان کو زخمی ہونے کے بعد گھر کی گاڑی کے بجائے رکشہ میں مقامی اسپتال پہنچایا گیا تھا۔
اسپتال پہنچنے پر سیف کا آپریشن کرکے ان کی ریڑھ کی ہڈی سے چاقو کا 2.5 انچ کا ٹکڑا نکالا گیا اور اداکار کو تقریباً 6 دن کے بعد اسپتال سے ڈسچارج کردیا گیا۔
دوسری جانب اب این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سیف علی خان کی رہائش گاہ سے حاصل کیے گئے فنگر پرنٹس کے نمونے مبینہ طور پر حملے میں ملوث بنگلادیشی شخص محمد شریف الاسلام شہزاد کے فنگر پرنٹس سے میچ نہیں کر رہے۔
اداکار پر چاقو حملے کے بعد ممبئی پولیس نے ان کی رہائش گاہ سے فنگر پرنٹس کے 19 نمونے حاصل کیے تھے لیکن حیران کن طور پر کوئی ایک بھی نمونہ پولیس کی زیر حراست مبینہ بنگلادیشی شہری کے فنگر پرنٹس سے نہیں مل رہا۔