Time 04 فروری ، 2025
صحت و سائنس

انسانی دماغ میں پلاسٹک کے ننھے ذرات کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، تحقیق

انسانی دماغ میں پلاسٹک کے ننھے ذرات کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، تحقیق
ایک تحقیق میں اس بارے میں بتایا گیا / فائل فوٹو

گزشتہ 50 برسوں کے دوران دنیا بھر میں پلاسٹک کے ننھے ذرات کا پھیلاؤ بڑھ گیا ہے اور دماغ میں اس آلودگی کی سطح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

یہ انتباہ امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آیا۔

نیو میکسیکو یونیورسٹی کی تحقیق میں 1997 سے 2024 کے دوران انتقال کر جانے والے درجنوں افراد کے پوسٹ مارٹم میں دریافت کیا گیا کہ دماغ میں پلاسٹک کے ننھے ذرات کی مقدار میں اضافہ ہو رہا ہے۔

تحقیق میں ان ذرات کو جگر اور گردوں کے نمونوں میں بھی دریافت کیا گیا۔

اس سے قبل بھی مختلف تحقیقی رپورٹس میں پلاسٹک کے ننھے ذرات کو خون، ماں کے دودھ، آنول اور بون میرو سمیت جسم کے مختلف حصوں میں دریافت کیا جاچکا ہے۔

اب تک یہ مکمل طور پر واضح نہیں کہ انسانی صحت پر ان ذرات سے کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں مگر انہیں مختلف رپورٹس میں فالج اور ہارٹ اٹیک سے منسلک کیا گیا ہے۔

اس نئی تحقیق میں یہ بھی دریافت ہوا کہ ڈیمینشیا کے شکار افراد میں پلاسٹک کے ننھے ذرات کی مقدار دیگر صحت مند افراد کے مقابلے میں 6 گنا زیادہ ہوتی ہے۔

مگر محققین کے خیال میں ایسا ڈیمینشیا سے دماغ کو پہنچنے والے نقصان کے باعث ہوا اور ان دونوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔

محققین نے بتایا کہ اردگرد کے ماحول میں پلاسٹک کے ننھے ذرات کی بڑھتی آلودگی کو دیکھا جائے تو یہ ڈیٹا ہمیں یہ سمجھنے میں مدد فراہم کرے گا کہ یہ ذرات کسی دماغی مرض یا انسانی صحت پر اثرات مرتب کرتے ہیں یا نہیں۔

اس تحقیق میں پہلے 2016 سے 2024 کے دوران انتقال کر جانے والے 52 افراد کے دماغ، جگر اور گردوں کے ٹشوز کے نمونوں کا تجزیہ کیا گیا۔

تحقیق میں دریافت ہوا کہ دماغ میں پلاسٹک کے ذرات کی تعداد جگر یا گردوں کے مقابلے میں زیادہ تھی، خاص طورپر 2024 میں انتقال کرنے والے افراد کے دماغی ٹشوز میں یہ سب سے زیادہ تھی۔

اس کے بعد محققین نے 1997 سے 2013 کے درمیان انتقال کر جانے والے افراد کے نمونوں کا جائزہ لیا اور ثابت ہوا کہ 1997 سے 2024 کے دوران دماغ میں پلاسٹک آلودگی کی شرح میں بتدریج اضافہ ہوا۔

سب سے عام ذرات polyethylene کے تھے جس کو پلاسٹک بیگ اور فوڈ پیکجنگ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

محققین نے تسلیم کیا کہ ہر فرد کے اعضا کے صرف ایک، ایک نمونے کا تجزیہ کیا گیا تو بہت زیادہ ٹھوس انداز سے کچھ کہنا ممکن نہیں، اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

اس تحقیق کے نتائج جرنل نیچر میڈیسن میں شائع ہوئے۔

مزید خبریں :