27 مئی ، 2025
ملک میں ہرچند ماہ بعد یہ بحث زور پکڑتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات ہونے چاہیں اور تان یہاں آکر ٹوٹتی ہے کہ عمران خان کو رہائی ملنی چاہیے لیکن دونوں باتوں کے لیے ٹھوس وجوہات نہیں بتائی جاتیں۔
اس مضمون میں یہی اجاگر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اگر عمران خان کو رہائی نہ دی جائے تو کیوں؟ اور اگر رہائی دے دی جائے تو اس کے ملک پر اثرات کیا ہوں گے۔
پہلی بات تو یہ کہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ سے براہ راست اپنے مذاکرات کے علاوہ کسی اور کو یہ اختیار دینے پر تیار ہی نہیں۔ اس کے باوجود کہ اسٹیبلشمنٹ واضح کرچکی ہے کہ جو بھی بات ہونی ہے وہ سیاسی قیادت کے درمیان ہوگی۔ عمران خان کی ضد کا مطلب ہے کہ وہی دھاک کے تین پات یعنی وہ خود بند گلی میں محصور ہیں۔
حالیہ دنوں میں ہوئی بعض پیشرفت پر نظر ڈالی جائے تو کئی مواقع ایسے آئے جن میں بانی پی ٹی آئی چاہتے تو خود کو تبدیل شخص کی حیثیت سے منوا سکتے تھے۔ وہ نو مئی کا داغ دھو کرخود کو دس مئی کی صف میں کھڑے لوگوں میں شامل کراسکتے تھے۔
سات مئی انہی میں سے ایک دن تھا جب بھارت کی ننگی جارحیت کیخلاف مشترکہ مؤقف اپنانے کے لیے قومی سلامتی کمیٹی کا ہنگامی اجلاس بلایا گیا تھا۔
پی ٹی آئی کے بعض لیڈروں کے نزدیک بھی یہ سنہری موقع تھا کہ اجلاس میں شرکت کی جائے مگر قومی دفاع کے اس اہم ترین معاملے میں شرکت کو بھی عمران خان کی پیرول پر رہائی سے جوڑ کر آخری لمحات میں بائیکاٹ کا فیصلہ کرلیا گیا۔
پارلیمنٹ کا اجلاس بلایا گیا تو ہر صاحب فہم رکن کی زبان پر ایک ہی بات تھی کہ داخلی اتحاد کا مظاہرہ کیا جائے تاکہ دشمن کو یہ احساس ہو کہ اس نے کسی سیاسی جماعت کی حکومت یا اتحاد کو نہیں، ایک قوم کو للکارا ہے۔
یہاں بھی پاکستان تحریک انصاف کے رہ نماؤں نے ایک سانس میں افواج پاکستان کا ساتھ دینے کی بات کی تو دوسری سانس میں عمران خان کی رہائی کے مطالبات رکھے۔
پی ٹی آئی نے پہلگام واقعے کی عالمی سطح پر تحقیقات میں تعاون کے مؤقف کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جبکہ یہی وہ تُرپ کا پتا تھا جس نے پاکستان کا امیج بہتر کیا تھا۔ پاکستان یہ پیشکش نہ کرتا تو دنیا بھارت سے یہ سوال نہ پوچھتی کہ اگر پاکستان کے ملوث ہونے کے ثبوت ہیں تو پیش کرو۔
سوال یہ ہے کہ آخر عمران خان نے اپنے دور میں بھارت کے خلاف ایسا کیا اقدام کیا تھا جو شہبازشریف کرنے سے گریز کررہے تھے؟ عمران خان کیا طُرم خانی دکھا گئے تھے کہ باقی سب ان کے آگےپانی بھرتے تھے؟
قوم کو یاد ہے کہ جب بھارت نے یکطرفہ اقدام کرکے مقبوضہ جموں وکشمیر کی حیثیت ختم کی اور وادی کو ہڑپ کرنے کی کوشش کی تو عمران خان ہاتھ پہ ہاتھ رکھے بیٹھے رہے تھے۔ قوم کا غصہ دبانے کے لیے ہفتہ وار مظاہروں کا ہوم ورک دے کر جان چھڑالی تھی۔ وہ مظاہرے بھی رفتہ رفتہ ختم کر دیے گئے تھے۔
عمران خان کی رہائی چاہنے والے پی ٹی آئی کے چیمپئنز سے کیا یہ پوچھا نہیں جانا چاہیے کہ اگر بانی پی ٹی آئی آج وزیراعظم ہوتے تو وہ پہلگام واقعے کے بعد پاکستان پربھارت کے حملے کے جواب میں بھی مودی سرکار کے خلاف مظاہروں ہی پر اکتفا نہ کرلیتے؟
کیا کوئی ہوشمند شاہ محمود قریشی کی بے اثر سفارتکاری کا موازنہ اسحق ڈار جیسے صاحب بصیرت شخص کی سفارتی کوششوں سے کرسکتا ہے کہ کانگریس لیڈر راہول گاندھی بھی مان رہے ہیں کہ بھارت سفارتی محاذ پر تنہا رہا۔ سبز پاسپورٹ کی اہمیت بڑھی اور دنیا بھرمیں اوورسیز پاکستانیوں کا سرفخر سے بلند ہوا۔
کیا کشمیر پر عمران خان کی خاموشی کا موازانہ شہبازشریف سے کیا جاسکتا ہے کہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ بارہا کہہ رہے ہیں کہ مسئلہ کشمیر حل کیا جائے اور جو پاکستان چاہتا تھا وہ ثالثی کی پیشکش اس حقیقت کے باوجود کی جارہی ہے کہ پاکستان کے مقابلے میں بھارت، امریکا کا زیادہ اہم اسٹریٹیجک پارٹنر ہے؟
یہ بھی کہ کیا ماضی کی جنگوں کے سرخیل کسی بھی جرنل کا مقابلہ فیلڈ مارشل سیدعاصم منیر کی بے مثل قیادت میں لڑی گئی بھارت کے خلاف جنگ سے کیا جاسکتا ہے جس میں ایسا منظم جواب دیا گیا ہے کہ بھارت چاروں شانے چت ہوگیا۔
بڑھکیں مارنے والی بھارت کی بری فوج ایک قدم آگے نہ بڑھ سکی۔ رافیل جیسے 6 لڑاکا طیاروں سمیت 6 جہاز مار گرائے گئے، ایس فورہنڈریڈ اڑادیا گیا، اہم ادارے اور ویب سائٹس ہیک کرلی گئیں اور نیوی نے ایسی ہیبت طاری کی کہ بھارتی بحریہ نے حملے کی جرات ہی نہ کی۔
پی ٹی آئی سے یہ سوال بھی بنتا ہے کہ جب بھارت کو ناکوں چنے چبوانے اور ماتھا رگڑ کر مذاکرات پر آمادہ کرنے کا ساری جماعتیں جشن منارہی تھیں تو پی ٹی آئی نے کتنی ریلیاں نکالیں؟ کیا بھارت میں گھس کر مارنے کی فتح مبین کا جشن منانے کے لیے پی ٹی آئی کو عمران خان کی رہائی کا انتظار ہے؟
اس میں دو رائے نہیں کہ عمران خان کی وزارت عظمی کے دور میں کسی حد تک اور انہیں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹائے جانے کے بعد خاص طور پر جو پی ٹی آئی نے پاک فوج کے خلاف مہم چلائی، اس نے اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں لوگوں کی رائے بڑی حد تک منفی کردی تھی۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ جنرل سید عاصم منیر کے بھارت کو تاریخ ساز جواب نے ان لوگوں کا بھی فوج پر مان قائم کردیا جو کبھی افواج پاکستان کے خلاف سوشل میڈیا پر میمز بناتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی فتح پر افواج پاکستان کے حق میں ملک بھر میں ریلیاں نکالی گئیں اور عوام نے خوشی میں مٹھائیاں بانٹیں۔
آرمی چیف کو وزیراعظم شہبازشریف نے فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دی تواس کا بھی بھرپورخیر مقدم کیا گیا۔کیا یہ سوال جائز نہیں کہ جب اتحادی جماعتیں فیلڈ مارشل عاصم منیر کی اس ترقی پر پہلے ہی روز مبارک بادوں کے پیغامات دے رہی تھیں، پی ٹی آئی کے کتنے لیڈر شادیانے بجارہے تھے؟
اس ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں عمران خان سمیت بہت سے ایسے لوگ ہیں جو اپنی سیٹ پکی رکھنے کے لیے صلاحیتیں مسلسل بہتر بنانے کے بجائے دوسروں کو دبانے کی سازشیں کرتے ہیں۔
کیا عمران خان کو اس لیے رہائی دی جائے کہ انہوں نے فیلڈ مارشل عاصم منیر جیسے غیرمعمولی صلاحیت کے حامل جرنل کو ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے سے صرف اس لیے ہٹادیا تھا کہ وہ ان کے گھر کی کرپشن سامنے لے آئے تھے؟
کیا عمران خان کو اس لیے رہائی دے دی جائے کہ وہ جرنل جس نے پاکستان سے کئی گنا بڑے بھارت کو دنیا بھر میں رسوا کردیا، وہ اسے آرمی چیف بنانے کے لیے کسی صورت تیار ہی نہ تھے؟
دوسروں کی طرح عمران خان بھی انسان ہیں۔ پسند نہ پسند ہوگی مگر کوئی جرنل بانی پی ٹی آئی کا ذاتی ملازم تو نہیں تھا جو میرٹ کی دھجیاں اڑائی گئیں۔
وہ شخص جو یہ نہ جانتا ہو یا نہ ماننا چاہتا ہوکہ جرنلوں میں سے کون آرمی چیف بننے کا سب سے زیادہ اہل ہے، کیا اسے رہائی دے کر دوبارہ ملک کی باگ ڈور سونپ دینی چاہیے؟
کیا اس عمران خان کو رہائی دے دی جائے جس نے بھارت کی طرح پاکستان کی امداد روکنے کے لیے آئی ایم ایف کو قائل کرنے کی خاطر ہرحربہ آزمایا تھا؟
ہاں دو تین وجوہات ایسی ضرور ہیں جن کی وجہ سے بانی پی ٹی آئی کو فوری رہائی ملنی چاہیے۔
اولین بات یہ کہ پی ٹی آئی کو امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے جو امیدیں تھیں وہ جاتی رہی ہیں۔ ٹرمپ اب پاکستان کی قیادت کی سیاسی بصیرت کے گُن گارہے ہیں یعنی جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دے گئے ہیں۔ اب خان مایوسی کی گہری کھائیوں میں گرچکا ہے۔
عمران خان کو رہائی اس لیے بھی ملنی چاہیے کہ اب وہ مغربی میڈیا کے لاڈلے نہیں رہے۔ کوئی ان کے مضامین نہیں چھاپ رہا۔ پوری پاک بھارت جنگ میں پی ٹی آئی رہنماؤں کو کسی نے منہ نہیں لگایا۔ ان کا بیانیہ پٹ چکا۔
حد یہ کہ عمران خان کے بیٹے ولاگرز کو انٹرویو میں یہ ماننے پر مجبور ہوگئے کہ کیمرے عمران خان کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں یعنی بانی پی ٹی آئی جن کے بل پر اکڑتے تھے، وہ الٹے پاؤں جاچکے۔
عمران خان کی رہائی آج اس لیے بھی ضروری ہے کہ جو حکومت فارم 47 کی پیداوار کہلاتی تھی، آج اس نے بھارت کیخلاف جرات مندانہ فیصلے سے قوم میں نئی روح پھونکی ہے اور 1947 میں پاکستان بننے کی یاد تازہ کردی ہے۔آج الیکشن ہو تو یہی اتحادی حکومت ماضی کے الیکشن سے بہتر نتائج لانے کی پوزیشن میں آچکی ہے۔
رہائی دینے کا موسم اس لیے بھی ہے کہ بجٹ سر پر ہے۔ اس وقت عمران خان کو آزادی ملی تو وہ بھرپور مظاہروں سے ماحول گرم کرسکتے ہیں۔ بجٹ پر تنقید کے بہانے شہر شہر مظاہرے کرکے عوام کو ورغلاسکتے ہیں۔ اس طرح معیشت کا جو پہیہ رگڑ کھا کھا کر چلا ہے، وہ پھر سے روک سکتے ہیں۔
معیشت کا پہیہ رُکا تو رفتہ رفتہ افواج پاکستان کا عوام میں وہ مورال بھی کم ہونا شروع ہوجائے گا جو آپریشن بنیان مرصوص کی تاریخی کامیابی سے حاصل ہوا ہے۔ یعنی جہاں سے چلے تھے، وہیں آکر ایک بار پھر پاکستان کو کھڑا کرنا ہے تو عمران خان کو آج ہی رہائی دے دینی چاہیے۔