Time 05 جون ، 2025
صحت و سائنس

ذیابیطس، ہارٹ اٹیک اور فالج جیسے جان لیوا امراض سے بچانے میں مددگار بہترین غذا

ذیابیطس، ہارٹ اٹیک اور فالج جیسے جان لیوا امراض سے بچانے میں مددگار بہترین غذا
ایک تحقیق میں اس بارے میں بتایا گیا / فائل فوٹو

ہر سال دنیا بھر میں امراض قلب بشمول فالج اور ہارٹ اٹیک سے سب سے زیادہ اموات ہوتی ہیں۔

مگر اچھی بات یہ ہے کہ غذائی عادات میں چند تبدیلیاں لاکر آپ دل کو صحت مند رکھ سکتے ہیں جس سے جسم میں خون کا بہاؤ بھی بہتر ہوتا ہے جبکہ میٹابولک سسٹم بھی درست طریقے سے کام کرتا ہے۔

یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

مڈویسٹ بائیو میڈیکل ریسرچ کی 2 تحقیقی رپورٹس میں بتایا گیا کہ موجودہ عہد میں ذیابیطس ٹائپ 2 کا مرض بہت عام ہوچکا ہے جو کہ امراض قلب سمیت دیگر طبی مسائل جیسے گردوں کے امراض خطرہ بڑھانے والا عنصر ہے۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اومیگا 6 فیٹی ایسڈ پر مبنی غذاؤں کے زیادہ استعمال سے کارڈیو میٹابولک صحت کو معاونت ملتی ہے جبکہ امراض قلب اور ذیابیطس ٹائپ 2 سے متاثر ہونے کا خطرہ گھٹ جاتا ہے۔

ان تحقیقی رپورٹس میں 1894 افراد کے طبی ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا جو کہ کووڈ 19 کی وبا کے دوران اکٹھا کیا گیا تھا۔

ان افراد کی اوسط عمر 50 سال تھی جبکہ جسمانی وزن معمول سے زیادہ تھا۔

ان افراد کے خون کے نمونوں میں اومیگا 6 فیٹی ایسڈ linoleic ایسڈ کی سطح کا جائزہ لیا گیا۔

محققین نے بتایا کہ خون میں linoleic ایسڈ کی سطح میں اضافہ یا کمی کا انحصار ہماری غذا پر ہوتا ہے اور ہم یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ اس سے ورم اور بلڈ گلوکوز پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

تجزیے کے دوران انہوں نے دریافت کیا کہ جن افراد کے خون میں linoleic ایسڈ کی سطح زیادہ ہوتی ہے، ان کے جسموں کے اندر ورم کی سطح بھی گھٹ جاتی ہے۔

دائمی ورم سے امراض قلب سمیت کارڈیو میٹابولک امراض کا خطرہ بڑھتا ہے خاص طور پر ورم بڑھانے والے ایک پروٹین سی ری ایکٹیو کی سطح بڑھنے سے ہارٹ اٹیک اور فالج کا خطرہ بڑھتا ہے۔

محققین نے یہ بھی دریافت کیا کہ اس ایسڈ کی سطح بڑھنے سے جسمانی وزن کو کنٹرول میں رکھنے میں مدد ملتی ہے جبکہ بلڈ گلوکوز کی سطح میں بھی کمی آتی ہے۔

خیال رہے کہ اخروٹ، انڈے، مچھلی، سورج مکھی کے بیج اور گریوں وغیرہ میں اومیگا 6 فیٹی ایسڈ کی تعداد کافی زیادہ ہوتی ہے جبکہ دیگر اہم غذائی اجزا جیسے فائبر، پروٹین، وٹامنز اور منرلز بھی جسم کو ملتے ہیں۔

محققین کے مطابق تحقیق کے نتائج کی تصدیق کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے مگر ان غذاؤں کے استعمال سے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔

مزید خبریں :