پاکستان
04 نومبر ، 2013

جنگ گروپ مساوات کا داعی،سچائی کے لیے لڑتا رہے گا

کراچی …جنگ اور جیو گروپ اپنے خلاف ٹیلی ویژن ، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر چلائی جانیوالی مہم کے خلاف پرعزم انداز میں پامردی سے ڈٹا ہوا ہے۔واضح رہے کہ ایک ٹی وی اینکر نے جنگ گروپ کے خلاف ایک نجی چینل پر حال ہی میں بے بنیا د الزامات عائد کیے تھے اور کہا تھا کہ جنگ و جیو گروپ کے مبینہ طور پر بھارتی خفیہ ایجنسی سے تعلقات ہیں اور ان تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے گروپ نے ایک نئے چینل کے خلاف ایک اسٹوری’ ہندوستان ٹائمز‘ میں چھپوائی تھی۔اس کے لیے بنیاد اس رپورٹ کو بنایا گیا جو مبینہ طور پر ’ہندوستان ٹائمز‘ کی اندرونی انکوائری تھی۔دوسری جانب ’ہندوستان ٹائمز‘ نے ایسی کسی بھی اسٹوری کے حوالے سے اندرونی انکوائری کی تردید کی ہے۔اس اسٹوری کے مطابق بھارتی شہری داؤد ابراہیم پاکستان کی آئی ایس آئی کی مدد سے ایک پروجیکٹ شروع کررہے ہیں۔اس جھوٹی رپورٹ کو ایک اور میڈیا گروپ نے بھی شائع کیا۔اسکے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ نے مذکورہ اینکر، زاہد حامد اور سینئر صحافی محمود شام کو پابند کیا کہ وہ جنگ گروپ کو بدنام کرنے یا اس کی شہرت کو داغدار کرنے کے لیے کوئی بھی مواد شائع یا براڈ کاسٹ نہیں کریں گے۔عدالت عالیہ نے یہ حکم نامہ انڈیپنڈنٹ میڈیا کارپوریشن کی جانب سے مذکورہ بالا تینوں مدعا علیہان کے خلاف دائر کردہ درخواست پر جاری کیا۔اس اینکر کی جانب سے جنگ گروپ کے خلاف مذکورہ بالا شو کرنے اور جھوٹی رپورٹ کی اشاعت کے بعد سے سوشل میڈیا ویب سائٹ ٹیوٹر پر ایک مہم شروع کردی ہے،مختلف النوع اور بکثرت استعمال ہونے والے اکاؤنٹس سے جنگ اور جیو گروپ کو اس مہم کا نشانہ بنایا جارہا ہے، اس میں جو الفاظ استعمال ہورہے ہیں ان میں: GEO BAN،GEO INDIAN DOGَََََِِِِِِِِ،Traiter Geo،اور جئے ہند کا دوسرا نام جیو وغیرہ جیسے الفاظ استعمال کیے جارہے ہیں۔اس حوالے سے زیادہ تر استعمال ہونے والے اکاؤنٹس ایک سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والوں کے پائے گئے ہیں اور اس جماعت کے ہمدرد ،سپورٹر اور عہدیدار اس میں شامل ہیں۔ سوشل میڈیا ویب سائٹس پر جو تصاویر گردش کررہی ہیں انھیں مذکورہ جماعت کے سپورٹرز نے اپنی ڈسپلے تصویر کو تبدیل کرکے شروع کررکھی ہیں تاکہ گروپ کو سخت صورتحال کا سامنا کرناپڑے۔اس کے علاوہ جیو کے لوگو کے ساتھ ایک روتے ہوئے بچے کی تصویر لگاکر ان ناقص العقل اور تجربے سے عاری افراد نے اپنی کم عقلی دکھائی،حالانکہ ان کے پاس جنگ گروپ کے خلاف لگائے گئے الزامات کا کوئی ثبو ت بھی نہیں ہے۔دوسری جانب بی بی سی نے اپنی ایک رپورٹ میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ اس گروپ کو آن لائن پر کیوں نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اور کہا ہے کہ کچھ ٹیوٹر اکاؤنٹس نے ہیش ٹیک کو مختصر وقت میں اس مسئلے پر سیکڑوں بار استعمال کیاجس سے یہ بات سامنے آئی کہ جنگ و جیو گروپ کے خلاف حقیقی طور پر ٹیوٹر استعمال کرنے والوں کے ساتھ ساتھ بعض لوگوں نے ایک مہم شروع کررکھی ہے۔ اس مہم کے بعد ایک آن لائن ویب سائٹ پر ایک رپورٹ شائع ہوئی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان تحریک انصاف نے جنگ اور جیو گروپ کے خلاف ایک وائٹ پیپر جاری کیا ہے۔ مذکورہ وائٹ پیپر مبینہ طور پر پی ٹی آئی سائبر فورس نے متعدد سوشل میڈیا سائٹس پر جمعہ کو پوسٹ کیاتاہم بعدازاں پی ٹی آئی نے اس کی تردید کی اور کہا کہ اس کے کسی آفیشل سوشل میڈیا ونگ نے جنگ اور جیو گروپ کے خلاف مواد آن لائن جاری نہیں کیااور یہ کسی خفیہ ہاتھ کی سازش معلوم ہوتی ہے تاکہ پی ٹی آئی کو ملک کے سب سے بڑے میڈیا گروپ سے لڑایا جاسکے۔واضح رہے کہ اس وقت ایسی کوششیں جاری ہیں جن کا مقصد جنگ گروپ کو اس کی آزادانہ پالیسیوں سے ہٹانے کے لیے مجبورکرنا ہے۔اس حوالے سے جنگ گروپ پر ٹیکس نادہندگی،بینکوں کے قرضوں کی عدم ادائیگی اور نیوز پیپرکوٹے کو منافع کمانے کے لیے استعمال کرنے کے الزامات عائد کیے جارہے ہیں حالانکہ جنگ اور جیو گروپ نے نہ تو بینک قرضوں اور نہ ہی ٹیکس کی ادائیگی میں کوئی تساہل یا غلط کاری کی ہے۔الزامات عائد کرنے والوں سے پوچھا جائے کہ وہ ثبوت لائیں اور پھر انھیں عدالتوں میں چیلنج کریں۔ذرا سوچئے مہم کے خلاف الزامات جھوٹے ہیں، اس مہم کی آڈٹ آزاد ، قابل بھروسہ اوراچھی شہرت کے حامل اداروں نے کی۔جنگ اور جیو گروپ کی طرح پاکستان میں تبدیلی لانے والے تمام لوگوں پر ہمیشہ دوسرے ملکوں کا ایجنٹ ہونے اور اسلام و پاکستان کے خلاف کام کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے لیکن گروپ ایسے الزامات عائد کرنے والوں کے خلاف لڑتا رہے گا۔’امن کی آشا‘ پروجیکٹ ملک کی سیکورٹی اسٹبلشمنٹ کے اعلیٰ ترین ارکان کے فیڈ بیک شامل کرنے کے بعد شروع کیا گیا اور اس کے لیے سو فیصد فنڈز جنگ و جیو گروپ نے فراہم کیا۔مذکورہ بالا الزامات میں سے کوئی بھی اس گروپ کے خلاف نئے نہیں ہیں اور الزامات عائد کرنے والے عدالت میں اس کے خلاف کوئی ثبوت نہیں لاسکے ہیں۔ جنگ و جیو گروپ مساوات پر مکمل یقین رکھتا ہے اور بنیادی حقوق کے حصول کے لیے اپنی مہم جاری رکھے گا۔

مزید خبریں :