30 مارچ ، 2012
اسلام آباد… فوج کی جانب سے سیاستدانوں کو مبینہ طورپر رقوم بانٹنے کیخلاف سپریم کورٹ میں اصغرخان کیس کی سماعت آج پھر ہوگی۔ سپریم کورٹ میں گزشتہ سماعت پرسپریم کورٹ نے سیاست دانوں سے رقوم واپس لینے کے لیے کمیشن کے قیام کے حوالے سے فریقین کو نوٹسز جاری کیے تھے جس میں سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ اسلم بیگ اور سابق آئی ایس آئی چیف اسد درانی بھی شامل تھے۔1990 میں آئی جے آئی کی تشکیل، پیپلز پارٹی کے خلاف انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے کے لیے آئی ایس آئی کی جانب سے سیاستدانوں میں رقوم کی بندر بانٹ۔یہ تھی اصغر خان پٹیشن جس کی سماعت بارہ سال چار ماہ بعد 29فروری2012کو سپریم کورٹ میں شروع ہوئی۔ مقدمے کے فریق ہیں سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ اسلم بیگ ،آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی ، مہران بنک کے سابق سربراہ یونس حبیب اور وزارت دفاع بھی۔اصغر خان کے مطابق سابق آرمی چیف اسلم بیگ نے مہران بینک سے 14 کروڑروپے نکلوائے اور یہ رقم1990ء کے الیکشن میں اثراندازہونے کیلیے استعمال کی گئی۔ نوازشریف کو 35لاکھ، جماعت اسلامی کو50لاکھ،نصیرمینگل کو 10لاکھ ملے۔ عابدہ حسین، جام صادق اور غلام مصطفیٰ جتوئی سمیت کئی اور نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔8 مارچ کی سماعت کے دوران یونس حبیب نے بتایاکہ انہوں نے صدرغلام اسحاق خان کے اصرارپر سیاستدانوں کیلیے ایک کروڑ 48 لاکھ روپے کا انتظام کیا ، رقم کی منتقلی کے لیے سابق آرمی چیف اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے کرنل اکبر نے بینک اکاوٴنٹس بتائے۔ 9 مارچ کی سماعت کے دوران اسد درانی نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ اس وقت کے آرمی چیف اسلم بیگ نے انہیں سیاستدانوں میں رقوم تقسیم کرنیکی ہدایات جاری کیں جب کہ ایوان صدر میں الیکشن سیل بھی قائم کیا گیا۔ سیاستدانوں میں رقوم کی تقسیم کیلیے انہوں نے مختلف افسرمقرر کیے جس میں ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس بھی شامل تھے۔اسلم بیگ نے یونس حبیب کے بیان پرجواب داخل کرایا جس کے آخری پیراگراف پر عدالت نے برہمی کااظہارکیا تو سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ اسلم بیگ نے روسٹرم پرآکرمعافی نامہ تحریرکرنا پڑا۔ 14 مارچ کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا ، اٹارنی جنرل بتائیں کہ ایجنسیوں کا سیاسی کردار کیسے ختم ہوسکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے سیاست دانوں سے رقوم واپس لینے کے لیے کمیشن کے قیام کی خاطریونس حبیب کی متفرق درخواست پر فریقین کو نوٹسز بھی جاری کیے۔