28 جنوری ، 2014
اسلام آباد…سپریم کورٹ میں سابق صدر پرویز مشرف کی 31 جولائی2009 کے فیصلے پر نظر ثانی درخواست کی سماعت جاری ہے۔ سابق صدر پرویز مشرف کے وکیل ابراہیم ستی ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عبد الحمید ڈوگر کی مدت کے دوران کسی نے دعویٰ نہیں کیا کہ وہ چیف جسٹس ہیں، افتخارچوہدری نے 24 مارچ تک عبد الحمید ڈوگرکے ریٹائرہونے کا انتظارکیا۔ ابراہیم ستی ایڈووکیٹ کہنا تھا کہ عدالتی فیصلے میں پی سی او کے اصل مسودے کو فیصلے کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے استفسار کیا کہ وہ حصہ کیا تھا؟۔ ابراہیم ستی ایڈووکیٹ نے کہا کہ وہ حصہ یہ تھا کہ ایمرجنسی افواج اور چیف آف آرمی اسٹاف کی مشاورت سے لگائی گئی،گورنر، کورکمانڈراورچیف آف آرمی اسٹاف کی مشاورت سے 3 نومبر کا اقدام ہوا،سابق وزیراعظم نے شوکت عزیزنے پرویزمشرف کوخط لکھ کربتایا کہ ملک آئینی بحران کا شکار ہے۔ابراہیم ستی ایڈووکیٹ نے دلائل میں کہا کہ پرویزمشرف نے 3 نومبرکو 3 احکامات جاری کیے، پہلا آرڈربطور چیف آف آرمی اسٹاف جاری کیا،پرویز مشرف نے ججزکے حلف کا آرڈربطور صدرجاری کیا۔ پرویز مشرف کے وکیل نے کہا کہ عبد الحمید ڈوگر کی مدت کے دوران کسی نے دعویٰ نہیں کیا کہ وہ چیف جسٹس ہیں، افتخارمحمد چوہدری کو ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے 16 مارچ کو بحال کیا گیا، افتخارچوہدری نے 24 مارچ تک عبد الحمید ڈوگرکے ریٹائرہونے کا انتظارکیا۔ابراہیم ستی ایڈووکیٹ نے کہا کہ کیس شروع ہو ا تو پرویز مشرف درخواست میں فریق نہیں تھے، اٹارنی جنرل نے فیڈریشن کی طرف سے بیان دیا کہ 3 نومبر کے اقدام کی حمایت نہیں کرتے۔چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کہا کہ پارلیمنٹ نے 3 نومبر2007 کے اقدامات کی توثیق نہیں کی۔ ابراہیم ستی نے کہا کہ پرویز مشرف کو 22 اپریل کو نوٹس گیا مگر وہ طالبان کی دھمکیوں کے باعث لندن میں تھے۔چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 14 رکنی بینچ درخواست کی سماعت کررہا ہے۔