بلاگ
23 مئی ، 2017

ترقی کی شاہراہ۔۔۔ون روڈ ون بیلٹ

ترقی کی شاہراہ۔۔۔ون روڈ ون بیلٹ

کہا جاتا ہے ایک چھڑی کمزور ہوتی ہے اور اسے توڑنے کے لئے دو ہاتھ ہی کافی ہوتے ہیں لیکن اگر چھڑیوں کا گٹھا ہو تو اسے توڑنا ممکن نہیں ہوتا، انہیں توڑنے کے لئے علیحدہ علیحدہ کرنا پڑتا ہے۔ یہی صورت حال ایک گھرانے اور ملک کی ہوتی ہے لوگ اکٹھے رہیں تو مضبوط رہتے ہیں اور کوئی ان کا بال بھی بینکا نہیں کرسکتا۔ اگر بکھرے رہیں تو پھر ارد گرد سے سازشوں کا شکار رہتے ہیں۔

ہماری صورت حال بھی کچھ اسی طرح کی ہے، ہمیں غیر مستحکم کرنے کے لئے ادھر ادھرسے جو حملے ہورہے ہیں، اس کی وجہ ہمارا متحد نہ ہونا ہے۔ حکومت بات کرتی ہے تو اپوزیشن منہ دوسری طرف کرلیتی ہے۔ لیکن ہمیں اپنے ہمسائے چین کو دیکھ کر رشک آتا ہے، ہمارے دو سال بعد آزاد ہونے والا چین قوم بن کر ابھرا اور دنیا کی بڑی طاقت بن گیا۔

میرے نزدیک اس وقت دنیا کی سب سے بڑی طاقت امریکا نہیں بلکہ چین ہے۔ اس کے برعکس آج ہم جہاں کھڑے ہیں یہ لحمہ فکریہ ہے۔ ہمارے سیکورٹی اور معاشی حالات دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم دو قدم آگے بڑھتے ہیں تو ایک قدم پیچھے ہوجاتے ہیں۔

امریکا خود کو سپر پاور کہلاتا ہے مگر پھر بھی وہ جی 8 جیسے اتحاد میں شامل ہونا پڑتا ہے ۔ یورپی اتحا بنا تو ہم نے دیکھا کے پورا یورپ اس سے مضبوط ہوا۔ لیکن آج جب برطانیہ یورپی اتحاد سے باہر نکل رہا ہے تو بیشتر ماہرین کا ماننا ہے کہ برطانیہ کو اس سے نقصان اٹھانا پڑے گا۔

میرے خیال میں چین اس بات کو بخوبی جانتا ہے کہ ایشیا میں اتحاد وقت کی ضرورت ہے اور وہ اپنے ون بیلٹ ون روڈ کے تصور کوعملی جامہ پہنا کر جہاں معاشی عزائم پورے کرنا چاہتا ہے وہیں وہ اس خطے کو ایک نئی طاقت بنانا چاہتا ہے۔  

اس پالیسی میں چین نے ایک بار پھر پاکستان کے ایک بہترین دوست ہونے کا ثبوت دیا اور اسی لیے وہ ہمارے توانائی کے بحران، مواصلات اور دیگر معاملات کو صحیح کرنے میں مدد کررہا ہے۔

چین کے پاس جو ٹیکنالوجی ہے، وہ ہمارے پاس نہیں۔ چین وہ ملک ہے جس نے اس سال ایک مال گاڑی چین سے برطانیہ پہنچا دی۔ یہ مال گاڑی دس ملکوں سے گزرتی ہوئی 12 ہزار کلومیٹر کا سفر طے کرکے 17 دن میں چین سے برطانیہ پہنچی۔ چین یہ بھی سوچ رکھتا ہے کہ پاکستان کو بھی ریل کی پٹری کے ذریعے یورپ سے ملادیا جائے۔

مجھے حال ہی میں چین کا دورہ کرنے کا موقع ملا جہاں مجھے گوانگ زو میں روزنامہ گوانگ زو کا دورے کا بھی اتفاق ہوا۔ روزانہ لاکھوں کی تعداد میں چھپنے والے ایک ذمہ دار نے ہمیں بتایا کہ چین کا ارادہ ہے کہ پاکستان کے پہاڑوں میں ریل کی پٹری بچھا کر پاکستان کو یورپ سے ملادیا جائے۔ سی پیک تو پاکستان کے لئے ایک انقلابی پروگرام ہے ہی لیکن ریل کے ذریعے پاکستان کو یورپ سے ملانا ایک بڑا منصوبہ ہوگا۔

چین میں ہمیں انر منگولیا کا دورہ بھی کرایا گیا۔ وہاں کی ایک دودھ دہی بنانے والی کمپنی میں پہنچے تو حیران رہ گئے۔ اس کمپنی کے اثاثے 920 ارب روپے سالانہ تک پہنچ چکے ہیں لیکن ہم مثال یہ ہے کہ ہم سے چند ارب روپے کی کراچی اسٹیل ملز نہیں سنبھل رہی اور نہ ہم سے پی آئی اے اور ریلوے منافع بخش ادارے بن پا رہے ہیں۔

ہماری سوچ یہ ہے کہ جو ادارے نقصان میں ہوں ان کی نجکاری کے بجائے ہم ان اداروں کے بیچنے کی طرف جاتے ہیں جو پہلے سے ہی منافع بخش ہیں۔ اس کی ایک مثال ملک کے تین بڑے ائرپورٹ کی نجکاری کرنا ہے جو کہ سالانہ 6 ارب روپے قومی خزانے کو دے رہے ہیں۔

میرے خیال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم چین کی صرف دوستی کو نہ دیکھیں بلکہ اس کی ترقی کے راز کو بھی سمجھنے کی کوشش کریں اور اسی کی طرح ایک قوم بن کر اپنے مسائل حل کریں۔ چین جنوبی ایشیاء کو ترقی کے جس راستے پر ڈال رہا ہے وہ وقت کی ضرورت ہے اور پاکستان کو اس سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ہمیں چین کی مدد کے ساتھ ساتھ اپنے رویوں کو درست کرکے ملک کے انفراسٹرکچر بہتر کرنا ہوگا، اسی طرح ہم ون بیلٹ ون روڈ سے حقیقی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔