LIVE

فیکٹ چیک: ویڈیو میں ملٹری کیس کے ملزم کی بیٹی پر پولیس تشدد نہیں دکھایا گیا

جیو فیکٹ چیک,محمد بنیامین اقبال
June 05, 2024
 

آن لائن صارفین ایک ویڈیو شیئر کر رہے ہیں جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ لاہور رجسٹری کے باہر پولیس افسر نے ایک لڑکی پر تشدد کیا ہے جس کے والد پر 9 مئی کو فوجی تنصیبات پر حملوں میں مبینہ کردار پر ملٹری کورٹ میں مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔

دعویٰ غلط ہے۔

دعویٰ

8 مئی کو ایک فیس بک صارف نے ایک ویڈیو پوسٹ کی جس میں ایک لڑکی کو سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری کے باہر دکھایا گیا تھا۔ صارف نے اسے ایک اور ویڈیو کے ساتھ جوڑ دیا جس میں دکھایا گیا ہے کہ ایک لڑکی پر پولیس افسر نے تشدد کیا ہے۔

ویڈیو کے کیپشن میں دعویٰ کیا گیا کہ ایک لڑکی جو ملٹری کیس میں قید اپنے والد کی رہائی کے لیے آئی تھی اس پر پولیس نے تشدد کیا۔

اس نیوز آرٹیکل کے شائع ہونے تک اس پوسٹ کو 2 لاکھ 12ہزار دفعہ دیکھا، 7 ہزار 600 مرتبہ شیئر اور 4 ہزار سے زائد بار لائک کیا گیا۔

اسی ویڈیو کو یہاں، یہاں اور یہاں بھی شیئر کیا گیا۔

حقیقت

ویڈیو میں دکھائے گئے دونوں واقعات کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے۔

ویڈیو کے پہلے حصے میں نظر آنے والی لڑکی عاشق خان کی بیٹی ہے، جو 9 مئی کے فسادات کی وجہ سے لاہور میں فوجی حراست میں ہے۔ اس حقیقت کی تصدیق لاہور سے تعلق رکھنے والی وکیل خدیجہ صدیقی نے کی، جو 28مارچ کو اس وقت لڑکی کے ساتھ موجود تھیں جب وہ اپنے والد کی رہائی کی اپیل کرنے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری آئی تھی۔

ویڈیو کا دوسرا حصہ، جس میں پولیس اہلکار کو ایک لڑکی کو لات مارتے ہوئے دکھایا گیا ہے، وہ پاکستان سے نہیں ہے۔ یوٹیوب پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسے بنگلا دیش میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔ تاہم، جیو فیکٹ چیک آزادانہ طور پر واقعہ کی تاریخ اور مقام کا تعین نہیں کر سکا۔

ہمیںGeoFactCheck پر فالو کریں۔

اگرآپ کو کسی بھی قسم کی غلطی کا پتہ چلے تو geofactcheckgeo.tv پر ہم سے رابطہ کریں۔