پاکستان
12 اگست ، 2015

اسپیکر کی تصدیق لیکن حکومت کا استعفے منظور نہ کرنے کا فیصلہ

اسپیکر کی تصدیق لیکن حکومت کا استعفے منظور نہ کرنے کا فیصلہ

اسلام آباد.......ایم کیو ایم کے ارکان قومی اسمبلی کے استعفے تو ابھی قومی اسمبلی سیکرٹریٹ بھی نہ پہنچے تھے لیکن اسپیکر سردار ایاز صادق صبح سے ہی ان استعفوں کو منظور کرنے کے لیے کیوں پر تولے بیٹھے تھے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے استعفوں کی اجتماعی تصدیق سے انکار کرنے والے اسپیکر قومی اسمبلی نے اس بار جھٹ منگنی پٹ بیاہ کے مقولے پر عمل کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے استعفوں کی سب ارکان حتیٰ کہ میڈیا کی موجودگی میں بھی کیوں تصدیق کر ڈالی؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف کے معاملے میں حکومت کو مفاہمتی پالیسی کا درس دینےو الے اسپیکر نے وزیر داخلہ چوہدری نثار کی ملاقات کے باوجود ایم کیو ایم ارکان کے استعفے قبول نہ کرنے کی ان کی درخواست کو در خو اعتنا کیوں نہ جانا۔ اسپیکر اس بار وفاقی حکومت کی بجائے ہدایات کہاں سے لے رہے تھے؟ قومی اسمبلی کا رول 43اسپیکر کو پابند نہیں کرتا کہ وہ ذاتی حیثیت میں دئیے گئے استعفوں کی تصدیق فوری کریں۔ انگلی یہ بھی اٹھ رہی ہے کہ اسپیکر صاحب نے تصدیقی عمل میں وقت کیوں صرف نہ کیا؟ عوام تو اس لیے بھی ششدر ہیں کہ تحریک انصاف کے ارکان کو عوامی نمائندہ قرار دے کر اسمبلی میں رکھنے والی ن لیگی حکومت نے رات سے اطلاعات کے باوجود ایم کیوا یم کو ارکان کو مستعفی ہونے سے کیوں نہ روکا اور کوئی رابطہ تک کیوں نہ کیا؟ اب سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ آئین اور اسمبلی قواعد کے تحت استعفوں کی تصدیق کے بعد تیر کمان سے نکل جانے کے بعد اسے دوبارہ ترکش میں ڈالنے کی کوشش کیوں جا رہی ہے۔ اسپیکر کے پلیز پراسس کے الفاظ کی اپنی مرضی کی تشریح کیوںکی جا رہی ہے؟ آئین اور اسمبلی رول کہتے ہیں کہ قواعد کے تحت اجلاس جاری ہو تو اسپیکر کو رکن کے استعفے کی تصدیق کے بعدایوان کو آگاہ کرنا ہوتا ہے۔ اس کے بعد سیکریٹری قومی اسمبلی رکن کے مستعفی ہونے کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری کرتا ہے لیکن ایوان کو آگاہ کرنےسے پہلے ہی قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے نوٹی فکیشن کیسے تیار کر لیا؟ ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت استعفوں کی تصدیق کے عمل میں قانونی تقاضے پورے نہ ہونے کو جواز بنائے گی اور ایم کیو ایم کے ارکان پارلیمنٹ کے استعفے مسترد کر دیے جائیں گے لیکن کیا قانون اور آئین موم کی ناک ہے جسے حکومت اور اسپیکر چاہیں تو تحریک انصاف کے لیے ایک طرف موڑ دیں اور ایم کیوا یم کے لیے دوسری طرف۔قوم کو ان سوالات کے جوابات دینا پڑیں گے۔

مزید خبریں :