14 دسمبر ، 2015
کراچی …رپورٹ : عاقب علی …کراچی آرٹس کونسل میں ہونیوالی آٹھویں عالمی اردو کانفرنس کامیاب رہی۔موسیقی ،تھیٹر ، شاعری ، افسانوی اوربچوں کے ادب سمیت ادب کے تمام ہی شعبہ جات کی پذیرائی کی گئی جبکہ کئی اجلاسوں میں حاضری ’ہال فل ‘رہی۔
تقریب میں شریک ملکی و غیر ملکی ادیبوں نے 4 روزہ میلے کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیااور کہا کہ کسی بھی زبان کے ذریعے دوسری زبان کا خاتمہ ممکن نہیں اور نہ ہی کوئی بھی زبان دوسری سے چھوٹی ہوتی ہے جبکہ اردو کی خوبصورتی یہ ہے کہ اسے ہر کوئی اچھا سمجھتا ہے،اس سے درجن سے زائد زبانوں نے جنم لیا ہے۔
8دسمبر تا 11دسمبر تک جاری رہنے والی عالمی اردو کانفرنس کے مختلف اجلاسوں سے عالمی شہرت یافتہ ادیب انتظار حسین ، بھارتی نقاد شمیم حنفی ، سابقہ براڈکاسٹراور سینئر صحافی رضا علی عابدی ،سحر انصاری ،ڈاکٹر انوار احمد،شاعر افتخار عارف،حسینہ معین ،اصغر ندیم سید ،صحافی وسعت اللہ خان،ڈاکٹر فاطمہ حسن ،طلعت حسین و دیگر نے اردو ادب کی جہتوں پر گفتگو کی۔
آرٹس کونسل کے سیکریٹری محمد احمد شاہ نے4 روزہ تقریب کا خطبہ استقبالیہ پیش کیاجس میں انہوں نے کہا کہ تقریب کا مقصداردو دوستی اور انگریزی دشمنی نہیں ہے۔سینئر صوبائی وزیر نثار کھوڑو نے کہا کہ زبانیں سرحدیں نہیں جانتیں کیونکہ معاشرے کے بہت سے مسائل ہیں الفاظ کی شائستگی اور تازگی کو بر قرار رکھنا بہت ضروری ہے۔
چار روزہ کانفرنس میں 25سے زائد سیشن ہوئے جن میں ہال فل رہا۔ان میں معروف صدا کار ضیا ء محی الدین ،تھیٹر پلے ” منٹو میرا دوست‘ ‘،”ایک’شام انور مقصود کے نام‘ ‘اور خطے میں امن کے مسائل (پاک و ہند تعلقات کے تناظر میں )شامل ہیں جبکہ جن سیشنز میں بڑی تعداد میں شرکاء نے دلچسپی لی۔ ان میں ’افسانوی ادب‘،’ذرائع ابلاغ اور زبان‘ اور ’اردو ڈرامہ اور فلم ‘ ودیگر تھے۔
ضیا محی الدین نے ابن انشا،جو ش ملیح آبادی اور مشتاق یوسفی کی تحریریں،ایوب خاور اور ن میم راشد کی نظم اپنی بے مثال آواز میں پیش کر کے میلہ لوٹ لیا جبکہ ’منٹو میراد وست‘ کی ٹیم نے اسے دلچسپ اندازپیش کرکے حاضرین کے دل لوٹ لئے۔
اس موقع پر معروف ادیبہ کشور ناہید کی کتاب ’مٹھی بھر یادیں‘ ش فرخ کی کتاب’مدار‘ مصدق سانول مر حوم کا مجموعہ’یہ ناتمام زندگی جو گذری‘پی ٹی وی کے سابق ایم ڈی اختر وقار عظیم کی ’ہم بھی وہیں موجود تھے‘اور انور شعور اور صابر ظفرکے شعری مجموعوں کی تقریب رونمائی و پذیرائی منعقد کی گئی جسے ادب کے پیاسوں نے خوب سراہا۔
ماہرین اردو ادب نے اس بات پر زور دیا کہ اردو زبان کی ترقی جب تک نہیں ہوسکتی جب تک ہمارے سیاستدان اردو پڑھنا شروع نہیں کر دیتے، بد قسمتی سے ہمارے اجتماعی فیصلے سیاستدان ہی کرتے ہیں جبکہ اس طرح کی تقاریب زبان کے فروغ کا بڑا سبب ہیں۔
کانفرنس کے د وران بچھڑنے والی ادبی شخصیات جمیل الدین عالی ،شاہد احمد ،فتح یاب علی خان ،رئیس فروغ اور علی حیدر و دیگر کو یاد کیا گیا جبکہ عبداللہ حسین کی ادبی خدمات پر بھی شمیم حنفی ،اصغر ندیم سید،انتظار حسین نے سیر حاصل گفتگو کی۔
مختلف سیشنز سے بھارتی ادیب ابوکلام قاسمی ،فرہاد زیدی،ڈاکٹر قاسم بگھیو،عالیہ امام ، ڈاکٹر ابوکلام قاسمی، محمود السلام،ڈاکٹر انعام الحق جاوید،امداد حسینی،پروفیسر ہارون رشید ،پروفیسر انوار احمد زئی ، پروفیسرجمیل الحق،مظہر جمیل ،احمد فواد،احمد عطا للہ اورمنیر رئیسانی نے بھی اپنے مقالے پیش کئے۔
تقریب کے اختتام پر آرٹس کونسل انتظامیہ نے کہا کہ ادارہ اپنی بساط کے مطابق اردو کے فروغ کے سلسلے میں گزشتہ آٹھ برسوں سے اہم فریضہ انجام دے رہا ہے۔