20 جنوری ، 2016
ڈیلس......راجہ زاہد اختر خانزادہ...... امریکا میں انسانی حقوق اور سائوتھ ایشیا میں جمہوریت کو مانیٹر کرنے والی تنظیم سائوتھ ایشیا ڈیموکریسی واچ کی جانب سےماما قدیر اورفرزانہ مجید کو ایوارڈز سے نوازا گیا،ایوارڈز کی تقریب ڈیلس میں ہو ئی۔
بلوچستان میں لاپتہ بلوچ افراد کیلئے آواز اُٹھانیوالوں کی نمائندہ تنظیم ’’وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز‘‘ کے روح رواں صدر عبدالقدیر بلوچ ’’ماما قدیر‘‘ جنرل سیکرٹری فرزانہ مجید بلوچ کو انسانی حقوق کے لئے آواز بلند کرنے پر ایوارڈ دینے کی ایک تقریب ڈیلس میں ہوئی جس میں انسانی حقوق کی علمبردار تنظیموں کے رہنمائوں سمیت مقتدر شخصیات نے شرکت کی۔ اس موقع پر سائوتھ ایشیا ڈیموکریسی واچ کے صدر آفتاب صدیقی‘ بورڈ کے رکن اور سابق صدر امیر مکھانی نے دونوں رہنمائوں کو ایوارڈز پیش کئے۔
ایوارڈز کی تقریب سے خطاب میںعبدالقدیر بلوچ (ماما قدیر) نے کہاکہ پاکستان میں انصاف کے حصول کے لئے انہوں نے ہر دروازہ کھٹکھٹایا مگر ان کو انصاف نہیں مل سکا ،اس لئے اب وہ امریکا آئے ہیں تاکہ انصاف کے حصول کے لئے بین الاقوامی کمیونٹی کا دروازہ کھٹکھٹا کر بلوچ عوام کے لئے انصاف طلب کریں۔ انہوں نے کہاکہ 2004ء سے لے کر اب تک کے اعداد و شمار ان کے پاس موجود ہیں جو اب اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے حوالے بھی کردئے گئے ہیں ۔
اعداد و شمار کے مطابق اب تک تقریباً 9 ہزار لوگوں کو قتل کیا گیاہے جبکہ 35 ہزار افراد لاپتہ ہیں۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان میں سول حکومت ایک کٹھ پتلی کے طور پر کام کر رہی ہے۔کیوںکہ پاکستان کی سپریم کورٹ نے بھی احکامات جاری کئے مگر ان پر عملدرآمد نہ ہو سکا۔ انہوں نے کہاکہ ہمارا مطالبہ پاکستان کے آئین اور اقوام متحدہ کے آئین کے مطابق ہے کہ اگر کسی نے کوئی جرم کیا ہے تو اس کو عدالت میں پیش کر کے اُس پر مقدمہ چلایا جائے ۔
انہوں نے کہاکہ بلوچوں کو غدار وطن کہا جاتا ہے اور جب ان کی لاشیں پھینکی جاتی ہیں تو ان کے جسموں پر پاکستان زندہ باد کی مہریں لگائی جا تی ہیں ،مار مار کر کسی کوپاکستانی نہیں بنایا جا سکتا، اگر کوئی حقوق کی بات کرتا ہے تو اس کی سزا موت نہیں ہوتی۔پاکستان میں انصاف کا ہر دروازہ ان کے لئے بند کر دیا گیا ہے اس لئے وہ امریکا آئے ہیں اور واشنگٹن سے نیو یارک تک پیدل مارچ کر کے وہ بین الاقوامی برادری کی توجہ اس مسئلہ کی طرف مبذول کرانے کے خواہاں ہیں۔ ہم امریکا آئے ہیں اور یہاں پر ہمیں بلوچ کمیونٹی کے افراد سپورٹ کر رہے ہیں ہمارا کسی اور سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اس موقع پر فرزانہ مجید بلوچ نے کہاکہ بلوچستان میں جو کچھ کیا جا رہا ہے اُس سے خواتین بری طرح متاثر ہو رہی ہیں، شدت پسندی سے امن نہیں آتا ،بلوچ عوام کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے،جب کسی لاپتہ شخص کی لاش ملتی ہے تو کسی کی آنکھ نکلی ہوتی ہے تو کسی کی آنتڑیاں‘ جسم پر داغ لگا کر ’’پاکستان زندہ باد‘‘ لکھا ہوتا ہے آپ خود بتائیں کہ ایسا اگر آپ کے ساتھ ہو تو آپ کیا کریں گے۔ انہوں نے کہاکہ ہمارا ’’را‘‘ یا بھارت سے کوئی تعلق نہیں ہم حقوق کی جدوجہد کر رہے ہیں ۔ہماری لڑائی پنجابیوں سے بھی نہیں ہے ہماری دشمن اسٹیبلشمنٹ ہے جو ہماری قوم پر ظلم ڈھائے ہوئے ہے۔
اس موقع پر سائوتھ ایشیا ڈیموکریسی واچ کے جنرل سیکرٹری سید فیاض حسن نے کہاکہ جمہوریت‘ انسانی حقوق کو تحفظ فراہم کرتی ہے مگر جو کچھ ہو رہا ہے وہ جمہوریت اور انسانی حقوق کے اور پاکستان اور بین الاقوامی قوانین کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ اس موقع پر ڈیموکریسی واچ کے صدر آفتاب صدیقی نے کہاکہ ہماری تنظیم آپ کے ساتھ ہے اور جو آپ کے مطالبات ہیں وہ آئین اور قانون کے دائرے میں ہیں۔ اس موقع پر ڈیموکریسی واچ کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے اراکین اٹارنی توصیف کمال‘ راجہ زاہد اختر خانزادہ‘ امیر مکھانی‘ ڈاکٹر سمیر اقبال‘ غلام نبی کلوڑ‘ سراج بٹ‘ ڈیلس پیس سینٹر کے رہنماء حادی جواد اور دیگر نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور ماما قدیر اور فرزانہ مجید کی کاوشوں کو زبردست الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔