10 اکتوبر ، 2016
پی ٹی آئی کے اسلام آباد محاصرے کے تناظر میں اگر ایم کیو ایم پاکستان نے تمام منتخب اسمبلیوں اور بلدیاتی اداروں سے اجتماعی طور پر مستعفی ہونے کا فیصلہ کرلیا تو سندھ شہری میں بھی بڑا سیاسی بحران آسکتا ہے۔ اس نے اپنے رہنماؤں کی گرفتاری اور 22 اگست سے پہلے والی پوزیشن پر بحالی کے مطالبے پر حکومت و متعلقہ حلقوں کے سرد ردعمل کے بعد اس بات کی دھمکی دی ہے۔
ایک مضبوط سیاسی جماعت کی ʼتنہائیʼ سے کون فائدہ اٹھا سکتا ہے؟ ایم کیو ایم پاکستان کو بعض حلقوں کی طرف سے نہ صرف ایم کیو ایم لندن اور الطاف حسین سے دوری اختیار کرنے کا پیغام مل رہا ہے بلکہ اپنا نام بھی بدل کر ایک نئی پارٹی بنانے اور ʼمہاجر سیاست،ʼ ختم کرنے کا کہا جارہا ہے جس کے خلاف فاروق ستار اور دیگر نے اب تک مزاحمت کی ہے۔ اس سے ظاہر ہوا کہ ان پر ’ڈو مور‘ کا دباؤ بڑھ رہا ہے لیکن، اس کے بدلے میں انہیں کوئی ریلیف نہیں مل رہا.
خورشید بیگم میموریل ہال کی واپسی کا مطالبہ مسترد کردیا گیا ہے۔ سیکٹر اور یونٹوں کو دوبارہ کھولنے کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔ خاص طور پر 90 عزیز آباد کے قریب ایک مکان سے اسلحہ ملنے کے بعد رویہ سخت ہوگیا ہے۔ اس کے نتیجے میں ایم کیو ایم کے دونوں دھڑوں اور پی ایس پی کے کارکنوں کی گرفتاریاں بھی ہوسکتی ہیں۔ لگتا ہے کہ بعض حکام کراچی کی سیاست کو لسانی یا مہاجر سیاست سے پاک کرنا چاہتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق کراچی میں ایک نئی صف بندی اور ایک پارٹی کے مینڈیٹ کے بجائے ʼاتحادی مینڈیٹ‘ کے لئے منصوبہ بندی کی جاری ہے۔ کیا یہ ممکن ہوسکتا ہے چاہے ایم کیوایم پاکستان اسے قبول بھی کرلے ، یا پھر اس سے ایم کیو ایم لندن کی پوزیشن مضبوط ہوگی۔
سن 2013 کے بعد کراچی کی سیاست میں پاکستان تحریک انصاف اور پاک سرزمین پارٹی نئے ادا رے ہیں۔ منصوبے پر کام کرنے والے جماعت اسلامی کو بھی حصہ بنانا چاہتے ہیں. اگر ایم کیو ایم پاکستان نے اس کو قبول کرنے اور دباؤ کے تحت نام تبدیل کرنے سے انکار کیا اور استعفے دے دئیے تو امکانات ہیں کہ ان میں سے بہت سے لوگ واپس ایم کیو ایم لندن میں چلے جائیں گے۔
ایک اور منظر نامہ یہ بھی ہے کہ یہ صورت حال ایم کیو ایم کے دونوں دھڑوں کو اکٹھا ہونے پر مجبور کر سکتی ہے. اگرچہ حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کے اندر اب الطاف حسین اور ایم کیو ایم لندن کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے تاہم اس صورت حال میں ایم کیو ایم پر پابندی بھی عائد ہوسکتی ہے لیکن انہیں انتخابی سیاست سے دور کرنا فائدہ مند ہوگا یا پھر یہ صورت حال انتشار کا باعث بنے گی۔
سن 2013 کے عام انتخابات میں ایم کیو ایم کے 25 ارکان قومی اسمبلی اور 51 ایم پی اے تھے ۔ گزشتہ تین سالوں میں آپسی لڑائی کی وجہ سے سب سے پہلے پاک سرزمین پارٹی بنی۔ پھر بعض ارکان قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلی پی ایس پی میں شامل ہوگئے اور اپنی نشستوں سے مستعفی ہوگئے۔
ایم کیو ایم کو دوسرا نقصان 22 اگست کو الطاف حسین کی پاکستان دشمن تقریر سے ہوا اور پارٹی ایم کیو ایم لندن اور ایم کیوایم پاکستان میں مزید تقسیم ہوگئی۔ ایک ایم این اے ایم کیو ایم لندن میں چلے گئے اور اپنا استعفیٰ بھیجا جبکہ باقی نے ایم کیو ایم پا کستا ن میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ لہذا اگر ارکان اسمبلی و سیکڑوں کی تعداد میں کونسلرز، میئر، ڈپٹی میئر، چیئرمین، ڈپٹی چیئرمین تمام مستعفی ہوگئے تو یہ مرکزی دھارے کی سیاست سے شہری تنہائی کے مترادف ہوگا۔ اس کے سنگین سیاسی نتائج ہو سکتے ہیں، خاص طور پر ایسے وقت جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت پہلے ہی عمران کے اسلام آباد مارچ کے دباؤ میں ہے۔
یہ ایک اتفاق ہو سکتا ہے لیکن جب بھی ایم کیو ایم، حکومت کے ساتھ اپنے اختلافات کو ختم کرنے کی کوشش کرتی ہے کچھ غیر معمولی ہوجاتا ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما گلفراز ایڈووکیٹ کی گرفتاری سے تین دن پہلے وزیراعظم نواز شریف نے فاروق ستار کا نہ صرف گرمجوشی سے استقبال کیا بلکہ اپنے قریبی ساتھی اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو ایم کیو ایم کی شکایات کے ازالے کی ہدایت کی۔
اس سے قبل 22 اگست کو کراچی پریس کلب میں بھوک ہڑتال پر بیٹھے ایم کیو ایم کے کارکنوں سے الطاف حسین کی تقریر سے چند گھنٹے قبل ایم کیو ایم کے ایک وفد نے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کے ساتھ کامیاب مذاکرات کیے تھے اور سندھ حکومت کے ایک وفد کو بھوک ہڑتال ختم کرانے کی ہدایت کر دی گئی تھی۔ چاہے مرکزی سطح ہو یا صوبائی سطح وفاقی حکومت اور سندھ حکومت آپریشن سے منسلک کسی بھی شکایات کے ازالے کے لئے اب تک آپریشن مانیٹرنگ کمیٹی نہیں بناسکیں۔
اب تک وفاقی حکومت ایم کیو ایم کے رہنما کی گرفتاری پر خاموش ہے لیکن رپورٹس کے مطابق آنے والے دنوں میں ایم کیو ایم کے وفد کی اسحاق ڈار یا وزیراعظم سے ملاقات ہوسکتی ہے ۔ اگر پارٹی کو بڑا ریلیف نہ ملا تو ایم کیو ایم پاکستان 30 اکتوبر سے قبل اجتماعی استعفوں کا فیصلہ کرسکتی ہے۔ ایم کیو ایم لندن کے تمام ارکان اسمبلی سے استعفے کے مطالبہ کی سیاسی وجوہات ہیں کیونکہ اس کا خیال ہے کہ اس کی سیاست اور پارٹی کو ایم کیو ایم پاکستان نے ہائی جیک کرلیا ہے۔ وہ شاید 22 اگست کے بعد کے منظر نامے میں اپنی انتخابی طاقت کی جانچ کرنا چاہتے ہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کس طرح ؟ ایم کیو ایم، لندن جانتی ہے کہ موجودہ حالات میں ان کے لیے اپنے امیدواروں کو آزاد کھڑا کرنا بھی ممکن نہیں ہو گا. لہذا، وہ استعفے سے یا ضمنی انتخابات سے کیا فائدہ حاصل کریں گے۔ وہ مرکزی دھارے کی سیاست میں ʼمہاجر کارڈʼ اور ان کی تنہائی کا استعمال کر سکتے ہیں لیکن، اب تک، ایم کیو ایم لندن پارٹی کے ارکان اسمبلی کے درمیان کوئی بڑی دراڑ ڈالنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ لہذا انہوں نے اپنا مطالبہ تبدیل کردیا ہے۔
پہلے انہوں نے ارکان اسمبلی سے اس بات پر مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا تھا کہ مینڈیٹ الطاف حسین کا ہے۔ اب پارٹی کنوینر ندیم نصرت نے کہا ہے کہ مہاجروں سے ناانصافی کے نام پر مستعفی ہوں۔ یہ بھی پتہ چلا کہ ایم کیو ایم لندن کا تعلق پاکستان میں زمینی حقائق اور سیاسی پیش رفت سے منقطع ہوگیا ہے۔ پالیسی کی اس تبدیلی سے ایک روز قبل ڈاکٹر فاروق ستار نے ʼاسٹیبلشمنٹʼ اور اسلام آباد کو خبردار کیا تھا کہ نا انصافی کا سلسلہ جاری رکھا اور 22 اگست سے پہلے والی پوزیشن نہ دی گئی تو ایم کیو ایم پاکستان نہ صرف اسمبلیوں سے بلکہ بلدیاتی اداروں سے بھی استعفیٰ دے دی گی۔
ایم کیو ایم لندن کے مقابلے میں ایم کیو ایم پاکستان نے رابطہ کمیٹی کے رہنما گلفراز ایڈووکیٹ کی گرفتاری کے بعد ایک طرح سے بہت مضبوط موقف لیا ہے۔ موجودہ صورت حال میں ایم کیو ایم پاکستان میں ظاہری دراڑ نہیں، لیکن ایم کیو ایم لندن یا الطاف حسین سے فاصلے کے بعد انہیں کوئی ریلیف نہیں مل رہا ہے ۔
ذرائع کے مطابق بعض ایف آئی آر اوپن ہیں جنہیں پولیس یا رینجرز ایم کیوایم کے کسی بھی رہنما یا کارکن کے خلاف استعمال کر سکتی ہے ۔ ریاست بمقابلہ دیگر کی اصطلاح اکثر 12 مئی یا 22 اگست جیسے معاملات میں استعمال کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر، ایم کیو ایم کے منتخب میئر، وسیم اخترکو ضمانت میں مشکلات کا سامنا ہے اور انہیں حلف برداری اجلاس میں بھی شرکت کی اجازت نہیں ملی۔
ایم کیو ایم کے ایک اور رہنما کنور نوید جمیل بھی جیل میں ہیں اور پی ایس پی رہنما انیس قائم خانی سمیت انہیں بھی ضمانت نہیں مل رہی۔ سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم کے اپوزیشن رہنما جن کے گھر پر چھاپہ مارا گیا تھا وہ بھی دباؤ میں ہیں لہذا، آئندہ چند روز میں فیصلہ ہو جائے گا کہ ایم کیو ایم عدالتی گرفتاری دیتی ہے یا اجتماعی استعفیٰ دیتی ہے۔ جو بھی فیصلہ ہوا اس کے سیاسی نتائج دور رس ہو سکتے ہیں۔