Time 20 مئی ، 2025
بلاگ

جنگوں کے پرانے رسم ورواج

بڑی دلچسپ کہانی ہے انسان کے پرانے جنگی رسم ورواج کی، جیو Element لڑنے مرنے سے باز نہیں آتا،  لفظ جیو کا مطلب سمجھتے ہیں نا آپ؟ کہتے ہیں کہ ہر وہ عنصر جو وجود میں آتا ہے، لازماً سانس لیتا ہے۔ جب تک آپ سانس نہیں لیتے آپ جیو کہلانے کے حقدار نہیں ہوتے۔

 جیو Elementکہلانے کیلئے آپ کا سانس لینا ضروری سمجھا جاتا ہے، جیو ہونے کے ناطے آپ میں روح ہوتی ہے،  آپ میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں ہوتی ہیں،  آپ کے وجود میں شعور اور لاشعور کی جبلتیں پنپتی رہتی ہیں،  یہ سب باتیں تب ہوتی ہیں جب آپElementجیو ہوتے ہیں،  آپ کے وجود میں ایک روح کا بسیرا ہوتا ہے، آپ سانس لے سکتے ہیں، سانس چھوڑ سکتے ہیں، سوچ سکتے ہیں، آپ سمجھ سکتے ہیں،  اس لیے آپ جیو کہلانے میں آتے ہیں۔

جیوElementہونے کے ناطے آپ لازمی طور پرجنگ وجدل سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں،  آپ امن اور شانتی پر اکتفا نہیں کرتے آپ لڑنا چاہتے ہیں،  آپ مرنا اور مارنا چاہتے ہیں،  ذاتِ انسان کی تاریخ میں عادتاً مرنا مارنا لازمی مانا جاتا ہے،  یہاں پر ایک وضاحت ضروری سمجھی جاتی ہے،  ایسا کرتے ہیں کہ فی الحال جیو کو جانے دیتے ہیں ذات ِ انسان اپنا اپنا سالفظ لگتا ہے اور ہم استعمال کرتے ہیں، جس طرح ہندوستان سے ہماری نہیں بنتی ، عین اسی طرح بول چال اور لکھنے لکھانے کے ہنر میں ہماری ہندی، سنسکرت اور پراکرت سے نہیں بنتی،اجنبی اور اوکھے الفاظ لگتے ہیں، سر دست ہم لفظ انسانی ذات پر اکتفا کرتے ہیں۔

سب سے پہلے ضروری بات سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، اور اس کے بعد انسان کی قدیم جبلت، جنگ وجدل کے بارے میں بات کرتے ہیں، سانس لینے والی ہرچیز کی قدرتی طور پر دواکائیوں میں تقسیم ملتی ہے، Maleمذکر اور مؤنثFemaleسات سوصدیوں کا جائزہ لینے کے بعد آپ اور میں اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ دنیا میں قتل وغارت گری ، خون خرابے اور جنگ وجدل کے لامحالہ سر پنچ مرد ہوتے ہیں،  خونخوار جنگیں مرد لڑتے ہیں، عورتیں نہیں، لاؤلشکرجنگجو مردوں پر منحصر ہوتا ہے، خواتین پر نہیں۔

پرانے دور کے جنگجو جواں عقلمند بھی ہوتے تھے، جب بھی دو ملکوں کے درمیاں جنگ ہوتی تھی تب حکمران ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں مردوں کو جنگ میں نہیں جھونکتے تھے،  ابتدائی دور میں حکمران بہ نفس نفیس جنگ میں اترتے تھے اور مدمقابل حکمران کو دوبدو لڑنے کے لیے للکارتے تھے۔

 دونوں حکمرانوں کے درمیان ہونے والے مقابلے میں جو حاکم مقابلہ جیت جاتا تھا، وہ فاتح قرار دیا جاتا تھا اور بغیر کسی جنگ وجدل کے دوسرے یعنی ہارنے والے حکمراں کی حکومت پر قبضہ کرلیتا تھا،  اس نوعیت کی جنگوں کا محض ایک ہی مقصد ہوتا تھا،  حکومتوں کے لین دین میں عوام کو بے گوروکفن موت سے بچانا،حاکم وقت دوسرے کسی ملک کے حاکم وقت سے دوبدو لڑتے تھے،  ہارنے کی صورت میں عوام کو خواہ مخواہ دوسرے حاکم وقت کی فوجوں کے آگے کٹنے مرنے نہیں دیتے تھے۔

وقت نے کروٹ بدلی، دشمن ممالک کے حکمرانوں نے تخت وتاج کی خاطر اپنی جان جوکھوں میں ڈالنے کی بجائے میدان جنگ میں لڑنے کیلئے نئی اور انوکھی حکمت عملی اپنائی، ملک میں جسمانی طور پر طاقتور لوگوں کا کھوج لگایا گیا،  طاقتور لوگوں کی ہمت افزائی کی گئی، جنگ کے ایام میں جسمانی طور پر طاقتور لوگوں کی ٹیم بنائی گئی، جنگ وجدل کے بجائے ٹیموں کا آپس میں مقابلہ ہوتا تھا،  ٹیم کی ہار جیت پر ملک کی قسمت کا فیصلہ ہوتا تھا،  ہاری ہوئی ٹیم، اپنا ملک ہار بیٹھتی تھی،  یہ جو میں آپ کو پرانے دور کی باتیں بتارہا ہوں، کسی کتاب میں لکھی ہوئی باتیں نہیں ہیں،  یہ سب سنی سنائی اور زبانی کلامی باتیں ہیں۔

آپ بتا سکتے ہیں کمزور ممالک کی فوجیں طاقتور فوجوں کو کیسے پسپا کرتی تھیں؟ دوبدو مقابلہ کرنے کی بجائے وہ ان پر دور سے پتھر برساتی تھیں، دشمن کی فوجیں گھاٹیوں سے گزرتی تھیں تو ان پر وہ پہاڑ کی بلندیوں سے بھاری بھرکم چٹانیں گراتی تھیں، دشمن کی فوج پر دور سے پتھر برسانے کے عمل کو آپ آج کل کے دور میں دور سے دشمن پرراکٹوں سے حملے سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔

 دیکھا دیکھی کمزور فوجوں نے طاقتور فوجوں پر دور سے حملہ کرنے کے لیے بھالے بنائے، برچھیاں بنائیں، نیزے بنائے،  برچھیاں، بھالے اور نیزے بھاری ہوتے تھے، اس لیے قریب جاکر دشمن کی فوج پر برسائے جاتے تھے،  مگر کچھ ہی عرصہ کے بعد کمزور مگر عقلمند فوجوں نے اپنے حریف پر وار کرنےکے لیے کم وزن والا ہتھیار بنا ڈالا، ہتھیار کانام تھا تیرکمان۔

ترقی یافتہ دور میں ہم نےتیرکمان، بڑھئی اور بھالوں کی شکل وصورت بدل کررکھ دی ہے۔ اب ہم راکٹ اور میزائل چلاتے ہیں اور سینکڑوں کلو میٹر دور سے دشمن کے پرخچے اڑا سکتے ہیں۔

موجودہ دور کی افواج کے پاس شاید ہی ایسا کوئی ہتھیار ہو جس کے بارے میں آپ دعویٰ کرسکیں کہ اس کا نعم البدل قدیم دور کے لڑنے والوں کے پاس نہیں تھا،  مرنے مارنے کے ہنر میں انسان نے ہوشربا ترقی کی ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔