23 جون ، 2012
کراچی … سندھ اسمبلی کے اجلاس میں پیپلزپارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے وزراء اور اراکین نے بجٹ تقریر کے دوران امن و امان، تعلیم اور صحت پر حکومتی کارکردگی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ سندھ اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا کی صدارت میں ڈیڑھ گھنٹہ تاخیر سے شروع ہوا تو وقفہ سوالات کے بعد اراکین سندھ اسمبلی اور وزراء نے بجٹ تقاریر میں اپنی حکومت کے مختلف محکموں کی کارکردگی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ وزیر ریونیو سندھ جام مہتاب حسین ڈہر نے کہا کہ 4 سال میں پہلی بار اسمبلی میں زبان کھول رہا ہوں اگر کسی کو سچی بات سے تکلیف پہنچے تو مجھے کوئی دکھ نہیں۔ انہوں نے کہاکہ ملازمتوں پر پابندی کے باجود محکمہ تعلیم میں بھرتیاں کی جاتی ہیں، تعلیم کی صورتحال بہتر نہیں، میری تحصیل میں 58 اسکول بند ہیں، ڈی اوز کو پیسوں کی فکر ہے اسکول کھلنے کی فکر نہیں، فنڈز لینے ہوں تو 3 روز کیلئے اسکول کھل جاتے ہیں ۔ وزیر ریونیو نے کہا کہ ہیپاٹائٹس کنٹرول پروگرام میں صرف ضلع گھوٹکی میں کروڑوں روپے کا غبن کیا گیا، غبن کرنے والوں کو پکڑا بھی گیا لیکن نہ جانے کیوں انہیں چھوڑ دیا گیا، اوباڑو میں ایک چوکیدار کے انتقال پر کسی دفتر سے چوکیدار وہاں تعینات کیا گیا اور دفتر میں چوکیدار کی اسامی پر پیسے لے کر بھرتی کی گئی، اسکول کے چوکیداروں کی ٹرانسفر پوسٹنگ ہوتی ہے، میں ثبوت لایا ہوں۔ متحدہ قومی موومنٹ کے صوبائی وزیر عبدالحسیب نے کہا کہ میرا حلقہ آتش فشاں کا دہانہ بن چکا ہے، شیرشاہ کباڑی مارکیٹ کا نام پوری دنیا میں مشہور ہوگیا ہے، اس کی وجہ دہشت گردی کی وارداتیں ہیں، رحمان ملک کے دورے کے بعد کباڑی مارکیٹ میں 18 چیک پوسٹیں بنائی گئیں، 134پولیس اہلکار تعینات کئے گئے، اتنے اہلکار موجود تھے تو سابق ایم پی اے شاکر علی کے بھائی کو کس طرح شہید کردیا گیا، وزیراعلیٰ نے کباڑی مارکیٹ میں پولیس چوکی کو تھانے کا درجہ دینے کا حکم دیا لیکن اس پر اب تک عمل نہیں ہوسکا، اسلحہ لائسنس دینے کی بات کی گئی لیکن 120 اسلحہ لائسنس کے فارم پر اب تک دستخط نہیں کئے گئے۔ پیپلزپارٹی کے وزیر رفیق انجینئر نے کہا کہ میرے حلقے کے لوگ کھارادر، رنچھوڑ لائن، جوڑیا بازار اور دیگر علاقوں میں جائیں تو انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ کیا لیاری کے سارے لوگ دہشت گرد ہیں، کسی میں ہمت ہے تو دہشت گردوں کو مارے، مزدوروں کو کیوں مارتے ہیں، کسی بھی زبان بولنے والے کو قتل کیا جائے اس کی مذمت کرتے ہیں۔ رفیق انجینئر نے کہا کہ سندھ محبت ریلی پر فائرنگ کس نے کی، شہر کا امن خراب کرنے والوں کو تلاش کیا جائے۔ ایم کیو ایم کے رکن سندھ اسمبلی خواجہ اظہار الحسن نے کہاکہ ہم اپنے حلقوں میں نہیں جاسکتے، میرے حلقے میں شناختی کارڈ کا نمبر دے کر ایزی پیسہ کے ذریعے 50 ہزار روپے بھتا مانگا گیا، قانون نافذ کرنے والے ادارے بتائیں کہ جب ایم این اے، ایم پی ایز اور ان کے گھر محفوظ نہیں۔ خواجہ اظہار نے کہا کہ کراچی میں سیاسی فرقہ وارانہ، لسانی، قبائلی، گینگ وار، ڈکیتی میں مزاحمت پر قتل ہورہے ہیں، جتنے قتل بڑھ رہے ہیں پولیس میں اتنے محکمے بڑھ رہے ہیں، پولیس کی نفری 32 ہزار سے نہیں بڑھ رہی، اسی نفری سے پولیس کے مختلف محکموں میں اہلکار بھیجے جاتے ہیں، کراچی میں 12ہزار کی نفری ہے جو تاجروں کو تحفظ دے رہی ہے، امن و امان کو دیکھ رہی ہے، ہر کام میں یہی نفری استعمال ہورہی ہے۔ ایم کیو ایم کے وزیر کھیل ڈاکٹر محمد علی شاہ نے کہا کہ کھیل کیلئے مجموعی بجٹ کا 0.2 فیصد مختص کیا گیا، اسے 0.5 فیصد کیا جائے۔ محمد علی شاہ نے وزیر خزانہ مراد علی شاہ اور سیکریٹری خزانہ نوید کامران بلوچ سے مخاطب ہوکر کہا کہ ظالمو نے میرے پیسے کم کردیئے، میں کس طرح کھیل کی سرگرمیاں چلاوٴں گا۔ سندھ اسمبلی کا اجلاس پیر کی صبح تک کیلئے ملتوی کردیاگیا۔