پاکستان
20 جولائی ، 2017

پاناما کیس: ہمارے سامنے کیس بادی النظر میں جعلی دستاویزات دینے کا ہے، سپریم کورٹ

اسلام آباد:پاناما عملدرآمد کیس کی سماعت کل تک ملتوی

Posted by Geo News Urdu on Thursday, 20 July 2017

سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت کے دوران جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے سامنے کیس بادی النظر میں جعلی دستاویزات دینے کا ہے لیکن فی الحال بادی النظر سے آگے نہیں جانا چاہتے۔

پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ جمع کرانے کے بعد عدالت عظمیٰ کے 3 رکنی بینچ نے آج کیس کی چوتھی سماعت کی جس میں وزیراعظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیئے جس کے بعد عدالت نے مزید سماعت کل تک ملتوی کردی تاہم سلمان اکرم راجہ کل بھی دلائل دیں گے۔

پہلی سماعت کی تفصیل پڑھیں: جے آئی ٹی کی فائنڈنگز کے پابند نہیں، سپریم کورٹ

جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید اور جسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل بینچ کیس کی سماعت کررہا ہے۔

سپریم کورٹ میں آج ہونے والی سماعت میں سلمان اکرم راجہ کے دلائل کے آغاز میں بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل خان اور جسٹس عظمت سعید نے سماعت سے قبل دستاویزات میڈیا پر آنے اور سلمان اکرم راجہ کی میڈیا سے گفتگو پر اعتراض کیا۔

جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آپ نے میڈیا کے سامنے اپنا کیس پیش کیا، آپ کی تمام دستاویزات میڈیا میں زیر بحث آئیں اس لیے میڈیا کو دلائل بھی دے دیتے۔

جسٹس اعجاز افضل کا بھی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہنا تھا کہ باہر میڈیا کا ڈائس لگا ہے، وہاں دلائل بھی دے آئیں۔

دوسری سماعت کی تفصیل پڑھیں: جے آئی ٹی بنانے کا مقصد وزیراعظم کو صفائی کا موقع دینا، سپریم کورٹ

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میڈیا کو میری طرف سے دستاویزات نہیں دی گئیں جس پر جسٹس عظمت کا کہنا تھا کہ تمام دستاویزات لیگل ٹیم نے ہی میڈیا کو دی ہوں گی، دونوں دستاویزات عدالت میں ہی کھولیں گے، ہم اطمینان سے آپ کی بات سنیں گے۔

سلمان اکرم راجہ کے دلائل کی ابتدا میں بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ جے آئی ٹی کے نام پر چند دستاویزات ہمیں موصول ہوئی ہیں۔

جب کہ جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ ایک دستاویز قطری شہزادے ایک برٹش ورجن آئی لینڈ سے متعلق ہے، قطری خط میں کیا ہے یہ علم نہیں، جے آئی ٹی نے متعلقہ حکام سے تصدیق کروانا تھی، جے آئی ٹی نے اسی وجہ سے تصدیق کے لیے دستاویزات بھجوائیں، مریم کے وکیل نے عدالت میں منروا کے دستاویزات سے لاتعلقی ظاہر کی۔

سلمان اکرم راجہ نے مؤقف اپنایا کہ جے آئی ٹی نے یو اے ای کے خط پر نتائج اخذ کیے، یو اے ای کے خط پر حسین نواز سے کوئی سوال نہیں پوچھا گیا، حسین نواز کی تصدیق شدہ دستاویزات کو بھی نہیں مانا گیا۔

وزیراعظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم نے عدالتی بینچ کے روبرو یو اے ای کی وزارت انصاف کا خط پڑھ کر سنایا۔

تیسری سماعت کی تفصیل پڑھیں: منی ٹریل کا جواب آج تک نہیں دیا گیا، سپریم کورٹ

جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ یواے ای سے بھی حسین نواز کے دستاویزات کی تصدیق مانگی گئی تھی جس پر سلمان اکرم نے مؤقف اپنایا کہ خط میں کہا گیا مشینری کی منتقلی کا کسٹم رکارڈ بھی موجود نہیں، 12 ملین درہم کی ٹرانزیکشنز کی بھی تردید کی گئی، یو اے ای حکام نے گلف ملز کے معاہدے کا رکارڈ نہ ہونے کا جواب دیا۔

جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ یو اے ای حکام نے کہا تھا یہ مہر ہماری ہے ہی نہیں، مہر کی تصدیق نہ ہونے کے جو اثرات ہوں گے وہ عدالت زیر بحث لانا نہیں چاہتی۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ایسا کچھ نہیں ہو گا، کچھ غلط فہمی ہوئی، غلطی ہوئی۔

جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ حسین نواز اور طارق شفیع سے پوچھا تو انہوں نے کہا ہم نے نوٹری نہیں کرایا، سب نے کہا وہ اس نوٹری مہر کو نہیں جانتے، اس کا مطلب یہ دستاویزات غلط ہیں، پوچھا گیا تھا کہ حسین نواز نے نوٹری پبلک سے تصدیق کروائی؟ حسین نواز نے جے آئی ٹی کو بتایا تھا کہ وہ دبئی نہیں گئے، کس نے نوٹری پبلک سے تصدیق کروائی؟ اس سے تو یہ دستاویزات جعلی لگتی ہیں۔

عدالت کے استفسار پر سلمان اکرم راجہ نے مؤقف اپنایا کہ حسین نواز کی جگہ کوئی اور نوٹری تصدیق کے لیے گیا تھا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے سلمان اکرم راجہ سے کہا کہ ہم آپ سے پوچھ رہے ہیں اپنا مؤقف بتا دیں جس پر ان کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی نے حسین نواز پر جرح نہیں کی، جےآئی ٹی نے غلط سوال کیے۔

جسٹس اعجاز نے ریمارکس دیئے کہ دبئی حکام نے دونوں نوٹری پبلک کو غلط اور جعلی قرار دیا، 12 مئی 1988 کی دستاویز کو، 30 مئی 2016 کو دبئی حکام نے جعلی قرار دیا۔ اس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ یو اے ای حکام سے سنگین غلطی ہوئی ہو گی۔

جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اب آپ نئی دستاویزات لے آئے ہیں، ان کے کیس پر اثرات دیکھیں گے، آپ کو چاہیے تھا تمام رکارڈ جے آئی ٹی کو فراہم کرتے جس پر سلمان اکرم کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی نے تو میری تمام دستاویزات کو جعلی قرار دیا۔

شریف خاندان کا جے آئی ٹی رپورٹ پر اعتراض: جلد 10 کو خفیہ رکھنا بدنیتی ہے، وزیراعظم 

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ دبئی حکام نے دبئی سے اسکریپ جدہ جانے کی تردید کی جس پر سلمان اکرم کا کہنا تھا کہ یہ اسکریپ نہیں مشینری تھی۔ جسٹس اعجاز نے کہا کہ جب مشینری دبئی سے ابو ظبی گئی تو اس کا رکارڈ ہونا چاہیے جس پر سلمان اکرم نے مؤقف دیا کہ مشینری دبئی سے ابو ظبی کے راستے جدہ گئی۔

جسٹس اعجاز نے کہا اب کہہ رہے ہیں کہ مشینری ابو ظبی سے جدہ گئی، آپ نے پہلے مؤقف اپنایا کہ مشینری دبئی سے جدہ گئی جس پر سلمان اکرم کا کہنا تھا کہ یو اے ای کے اندر سامان کی نقل و حرکت کا رکارڈ نہیں ہوتا۔

جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ جب سوال اٹھایا جاتا ہے تو دستاویز لے آتے ہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ کوئی مصدقہ دستاویز لائیں، جو دستاویزات آپ دکھا رہے ہیں وہ پرائیویٹ ہیں، نجی دستاویز میں تو یہ بھی لکھا جاسکتا ہے کہ سامان ٹائی ٹینک میں گیا، دستاویزات دینی ہیں تو کسٹم حکام کو دیں، کسٹم کوڈز تو انٹرنیٹ سے ڈاؤن لوڈ ہو جاتے ہیں۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ پیکنگ میں تو کوڈز لکھے گئے ہیں جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ دستاویزات میں پیکنگ کی فہرست کہاں ہے؟ سلمان اکرم نے مؤقف اپنایا مشینری کی منتقلی پر پہلے کسی نے شک و شبہ کا اظہار نہیں کیا۔

بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ان دستاویز کو رپورٹ کے جواب میں لایا گیا یہ نقطہ ہم نے نوٹ کر لیا۔ 

جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کے نتائج پر حملے نہ کریں، ان کی دستاویزات کا جواب دیں جس پر سلمان اکرم راجہ نے دلائل میں بتایا کہ عزیزیہ اسٹیل مل کا بینک رکارڈ بھی موجود ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا فروخت کے وقت عزیزیہ مل پر کوئی بقایاجات تھے جس کے جواب میں سلمان اکرم نے کہا کہ عزیزیہ مل پرجو بقایا جات تھے وہ ادا کر دیئے گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: حسین، حسن اور مریم نواز نے جے آئی ٹی رپورٹ پر اعتراضات

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ دستاویزات سے ثابت کریں کہ باقی لوگوں کو حصہ دیا گیا ؟ سلمان اکرم راجہ نے مؤقف اپنایا کہ جے آئی ٹی نے یہ سوال نہیں پوچھا جس پر  جسٹس عظمت کا کہنا تھا کہ کیا آپ کو اخبار میں اشتہار دے کر سوال پوچھا جاتا؟ اگر حسین نواز نے حصہ داروں کے شیئرز خریدے تو بھی ثابت کریں، موزیک فونسیکا کے مطابق مریم نواز فلیٹس کی مالکن ہیں جس کا آپ نے جواب دینا ہے۔

سلمان اکرم نے دلائل دیئے کہ الزام مریم نواز کے فلیٹس کی مالکن ہونے کا ہے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یہ الزام نہیں دستاویز کےمطابق حقیقت ہے، موزیک فونسیکا کے مطابق مریم نواز فلیٹس کی مالکن ہیں۔

وزیراعظم کے بچوں کے وکیل نے مؤقف دیا کہ فلیٹس حسین نواز کے دادا کی قطری خاندان کے ساتھ سرمایہ کاری سے خریدے گئے۔

جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ بینیفشل مالک کا الزام درخواست گزاروں نے لگایا ہے، الزام یہ ہے کہ وزیر اعظم نے لندن فلیٹس خریدے تھے، الزام ہے کہ لندن فلیٹس کی خریداری کے وقت بچے کم عمر تھے، درخواست گزار کہتا ہے کہ وزیر اعظم کے پاس پیسا کہاں سے آیا؟ جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ اگر مریم مالکن ثابت ہوئیں تو دیکھیں گے کہ ان کے پاس رقم کہاں سے آئی؟ عزیزیہ مل کی منی ٹریل کہاں ہے؟ جس پر سلمان اکرم نے مؤقف اپنایا کہ جواب دے چکے ہیں، عدالت مانتی نہیں یہ الگ بات ہے، عزیزیہ اسٹیل ملز بنی اور کام شروع کردیا اس کے جواب میں جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اور نقصان اٹھانا شروع کردیا۔

جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ بہت کچھ ایسا بھی ہے جو ہم کہہ نہیں سکتے، یہ لوگ پوچھتے ہیں ہم پر الزام کیا ہے؟ انہوں نے سلمان اکرم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے مطابق قطری سرمایہ وزیراعظم کے پاس نہیں آیا؟ رقم کہاں سے آئی اس کا جواب نہ ادھر سے آتا ہے نا ادھر سے، آپ کہتے ہیں کہ بچوں کے اکاؤنٹ میں رقم آئی لیکن ذریعہ معلوم نہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ قطری خط میں فلیگ شپ، عزیزیہ اور دیگر کاروبار کا ذکر نہیں، ڈیڑھ سال سے پوچھ رہے ہیں کہ جدہ میں پیسا کہاں سے آیا؟ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اگر فلیٹس بچوں کے ثابت ہو بھی جائیں تو بھی بوجھ پبلک آفس ہولڈر پر ہو گا۔

بینچ کے سربراہ نے سلمان اکرم سے کہا کہ آپ ایک گھنٹے سے دلائل دے رہے ہیں لیکن کوئی نئی بات نہیں کی، اگر آپ کے خلاف الزام نہیں تو اپنی توانائی کیوں خرچ کررہے ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ٹھیک ہے مان لیا رقم گلف اسٹیل ملز سے گئی لیکن کیسے؟ ہم ڈیڑھ سال سے پوچھ رہے ہیں کہ رقم کیسے گئی، بتائیں کیسے؟ 

سلمان اکرم کا دلائل میں کہنا تھا کہ لندن فلیٹس سے متعلق وزیراعظم کے بچوں پر کوئی الزام نہیں، ان پر کسی غلط کام کا بھی الزام نہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا الزام یہ بھی ہے کہ مریم نواز والد کے زیر کفالت ہیں، فلیٹس کا الزام اب بھی مریم نواز پر موجود ہے، آپ صبح سے اپنی باتیں دہرا رہے ہیں۔ وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میں باتیں نہیں دہرا رہا، الزام مجموعی طور پر لگایا گیا اور وہ الزام قبول نہیں کررہے ،صرف بیان کررہے ہیں۔

جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ عدالت میں جعلسازی پر فوجداری کارروائی کی استدعا نعیم بخاری نے کی ہے، بچے فلیٹوں کی خریداری ثابت نہ کرسکے تو پبلک آفس ہولڈر سے پوچھا جائے گا۔

جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ منی ٹریل سے متعلق ہمارے سوال اب بھی اپنی جگہ پر موجود ہیں۔

کیس کی سماعت میں عدالت نے کچھ دیر کا وقفہ لیا۔

جس کے بعد دوبارہ سماعت کے آغاز پر  سلمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ جے آئی ٹی نے قطری شہزادے کا بیان لینے کی زحمت نہیں کی، جے آئی ٹی نے تحقیقات مکمل نہیں کیں جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ کئی بار کہہ چکے ہیں کہ جے آئی ٹی کی سفارشات شامل نہیں۔

سلمان اکرم نے مؤقف اپنایا کہ متحدہ عرب امارات کے خط کے بعد مزید تحقیقات نہیں کی گئیں،  یو اے ای حکام نے کہیں نہیں کہا کہ نوٹری مہر ان کی نہیں جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ انگریزی میں تو یہی لکھا ہے۔ سلمان اکرم نے کہا کہ کیس میں مزید شواہد اور تحقیقات کی ضرورت ہے، جے آئی ٹی نے رحمان ملک کی رپورٹ کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ قرار دیا جب کہ جے آئی ٹی نے کوئی نئی بات نہیں کی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ رحمان ملک رپورٹ کا آپ سے کوئی تعلق نہیں، آپ کا تبدیل ہوتا ہوا مؤقف آپ کے لیے تباہ کن ہے جب کہ جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ آج آپ نئی بات لے کر آ گئے ہیں کہ مزید تحقیقات درکار ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفار کیا کہ حسین نواز آخر کر کیا رہے ہیں؟ جے آئی ٹی کو کہا تھا کہ تمام واجبات انہوں نے ادا کرنے ہیں، آپ کہتے ہیں عزیزیہ مل کے تمام 63 ملین حسین نواز کو ملے، حسین نواز نے کہا تھا ان کے پاس دیگر شیئر ہولڈرز کی پاور آف اٹارنی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما کا مقدمہ کرپشن کا نہیں اور اس کی توثیق سپریم کورٹ نے کی، مریم اورنگزیب

جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اب 63 ملین ریال رہ گئے ہیں جس پر سلمان اکرم راجہ نے مؤقف دیا کہ 63 ملین کا کچھ حصہ لندن گیا، رقم کا کچھ حصہ واپس بھی آیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ رقم واپس کیسے آئی، یہ بھی بتائیں جس پر وزیراعظم کے بچوں کے وکیل کا کہنا تھا کہ تمام باتیں یہاں پر نہیں بتائی جا سکتیں، جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا تو پھر کیا کسی اور فورم پر تفصیلات دیں گے؟

جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیئے کہ بار بار کہا جاتا ہے منی ٹریل موجود ہے، حسین نواز نے یہ بھی کہا کہ سعید احمد نے کوئی ادائیگی نہیں کی تھی۔ جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ ہل میٹل کے قیام کے لیے رقم کہاں سے آئی؟ معلوم نہیں، فائدہ اٹھانے والا سامنے موجود ہے لیکن فنڈز کے ذرائع معلوم نہیں، ہل میٹل سے فائدہ کس نے اٹھایا سب کو معلوم ہے۔

جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ کرپشن سے متعلق نیب قانون کو دوبارہ کھول کر دیکھیں، جس کی جائیداد ہو اسی نے وضاحت دینا ہوتی ہے جس پر سلمان اکرم راجہ نے مؤقف اپنایا کہ حسین نواز کا بے نامی دار اور زیر کفالت ہونا ابھی ثابت نہیں ہوا، اس قانون پر خواجہ حارث تفصیل سے بیان دے چکے ہیں، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ مہربانی کرکے دوبارہ پڑھ لیں میرا حافظہ کمزور ہے۔

سلمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ ہمارا مؤقف اس حوالے سے مزید تحقیقات کا ہے جس پر جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا آپ چاہتے ہیں کہ ہم سرکاری سطح پر آنے والی دستاویز پر یقین نہ کریں۔

جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس میں کہا کہ ہمارے سامنے کیس بادی النظر میں جعلی دستاویزات دینے کا ہے،  فی الحال بادی النظر سے آگے نہیں جانا چاہتے، ایسا کچھ نہیں کہیں گے جس سے کیس پر اثر پڑے۔ انہوں نے کہا اگر  جعلی دستاویزات عدالت میں پیش ہوں تو کیا ہوتا ہے؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ جعلی دستاویزات پیش کرنے پر مقدمہ درج کیا جاتا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جعلی دستاویزات پیش کرنے پر7 سال کی سزا ہوتی ہے۔ جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ راجا صاحب، یہ آپ لوگوں نے کیا کر دیا ہے؟ ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ ایسا ہو کیسے گیا؟ جسٹس عظمت کے ریمارکس پر سلمان اکرم راجہ نے کہ کہا سینیر وکیل اکرم شیخ اس وقت کیس چلا رہے تھے، متعلقہ فورم پر معاملہ جائے تو وضاحت بھی آئے گی۔

جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ منروا کا مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہوا جس پر سلمان اکرم نے دلائل میں کہا کہ منروا کے بعد سروسز فراہم کرنے کا معاہدہ جے پی سی اے کے ساتھ ہوا اور جے پی سی اے نے واضح کیا کہ ان کا مریم نواز سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ دبئی میں نوٹری تصدیق کرنے والے وقار احمد عدالت میں موجود تھے، وقار احمد اب عدالت سے باہر چلے گئے ہیں وہ اپنا بیان دینا چاہتے ہیں، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ وقاراحمد بیان دینا چاہتے ہیں اور حسین ان کا نام نہیں بتانا چاہتے، دبئی حکام کے پاس وقار احمد کا کوئی رکارڈ موجود نہیں، اس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اس معاملے پر دبئی حکام سے غلطی ہوئی ہوگی، اس کے جواب میں جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ آپ کی بات سے لگتا ہے دبئی حکومت بہت غلطیاں کرتی ہے۔ 

سلمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ  دوران سماعت حسین نواز کے کاروبار کے ابتدائی سرمائے سے متعلق سوال اٹھائے گئے جس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا جو باتیں نوٹ کرچکے ہیں وہ دوبارہ مت دہرائیں، سلمان اکرم راجہ نے کہا میں صرف عدالت کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ 6 لاکھ 50 ہزارپاؤنڈ ایف زیڈ ای سے فلیگ شپ کو بھیجے گئے، سرمایہ اور پیسا کہاں سے آیا جو فلیگ شپ کو منتقل ہوا؟ اس پر سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ سرمایہ قانونی فرم کے ذریعے بینک منتقل ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: قومی اسمبلی کو نئے وزیراعظم کیلئے تیاری شروع کردینی چاہیے، نعیم الحق

بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ برطانیہ میں تو تمام رکارڈ موجود ہوتا ہے، یا یہ رقم ہینڈ کیری کے ذریعے منتقل ہوئی؟ سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ قانونی فرم کے اکاؤنٹس کی تفصیلات موجود نہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ لاء فرم کے اکاؤنٹ میں رقم کہاں سے آئی؟ سلمان اکرم نے بتایا کہ لاء فرم کے اکاؤنٹ میں رقم شیخ حمد بن جاسم نے بھجوائی تھی۔

جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ کمپنی کے قیام کے لیے فنڈز کہاں سے آئے؟ دبئی میں حسین نواز کی کمپنی بھی ہے، کیا نواز شریف کمپنی کے چیئرمین تھے؟ سلمان اکرم نے مؤقف اپنایا کہ نواز شریف چیئرمین تھے لیکن تنخواہ نہیں لیتے تھے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ تنخواہ نہ بھی لیں تو یہ ان کے اثاثے میں شمار ہوتا ہے، کوئی شخص محنت کرتا ہے اور تنخواہ ملتی ہے تو وہ اس کا اثاثہ ہوگا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ حمد بن جاسم نے لندن سرمائے کا کہیں ذکر نہیں کیا جس پر سلمان اکرم راجہ نے دلائل میں کہا کہ جے آئی ٹی نے شیخ حمد بن جاسم کا بیان رکارڈ نہیں کیا، جسٹس اعجاز نے ریمارکس دیئے کہ حمد بن جاسم نے کہا کسی عدالت میں پیش نہیں ہوں گا۔ جسٹس عظمت کا کہنا تھا کہ حمد بن جاسم کو پاکستانی سفارتخانہ آنے کا کہا گیا تھا۔ سلمان اکرم راجہ نے مؤقف اپنایا کہ اگر ہمارا مؤقف مسترد کرنا ہے تو پہلے تحقیقات مکمل کی جائیں، اس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ جناب راجہ صاحب آپ ہم سے کیا چاہتے ہیں؟ کیا ہم سارے مل کر دوحا چلے جائیں، کچھ لوگوں کو پاکستان کے ویزے سے بھی استثنا ہے، اخبار کے مطابق تلور کے شکار کے لیے آنے والوں کا ویزا نہیں ہوتا۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ہم اپنی پوزیشن پر قائم ہیں، وزریراعظم اور بچوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا، مریم نواز کا آف شور کمپنیوں سے کوئی تعلق نہیں، فلیٹس بیئرر شیئرز کے ذریعے منتقل ہوئے۔

جسٹس اعجازالاحسن کا اپنے ریمارکس میں کہنا تھا کہ آپ کا سارا دفاع قطری پر منحصر تھا، قطری شہزادے آپ کے اسٹار گواہ تھے، قطری شہزادہ تو وڈیو لنک پر بھی آمادہ نہیں ہوا، شاید وہ زیادہ فوٹو جینک نہیں ہے اس لیے۔

بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ قطری تو اپنے محل سے باہر آنے کو تیار نہیں، جے آئی ٹی بیان رکارڈ کرنے کے لیے کیا کرتی؟

دوران سماعت سلمان اکرم راجا نے ارسلان افتخار کیس کا حوالہ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ارسلان افتخار کیس کے بعد قطر جانے کی ضرورت نہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ حمد بن جاسم کا بیان رکارڈ کریں تو کیا کہانی ختم ہو جائے گی؟ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ قطری اگر کوئی رکارڈ پیش کرتا تو شاید ضرورت نہ پڑتی، کیا قطری شہزادہ پاکستان آنے کے لیے تیار ہے؟ اس پر سلمان اکرم نے عدالت کو بتایا کہ مجھے اس حوالے سے کوئی ہدایات نہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ قطری کو پیش کرنا حسین نواز کی ذمے داری ہے، قطری شہزادہ حسین نواز کا سب سے اہم ترین گواہ ہے۔

دوران سماعت بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ نیب نے جو دستاویزات اسحاق ڈار سے متعلق دیں اس کی رسید دکھائیں جس پر انہوں نے بتایا کہ میں نے ایف بی آر سے پوچھا ہے کوئی رسید نہیں، نیب اور ایف بی آر کے درمیان خط و کتابت ہوئی ہے، اس وجہ سے اسحاق ڈار کے گوشوارے موصول ہوئے ہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ان دستاویز میں کوئی ریکوری میمو موجود ہوتو دکھائیں اس پر اسحاق ڈار کے وکیل نے جواب دیا کہ عدالت کے جو بھی سوال ہیں اس کا جواب کل دوں گا۔

جب کہ تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ میں بھی جواب الجواب دوں گا جو مختصر ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: قطری شہزادے کا ایک اور خط سامنے آگیا

سپریم کورٹ میں آج بھی کیس کی سماعت کے موقع پر فریقین، مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور پیپلزپارٹی کے رہنما سمیت دیگر اپوزیشن اراکین کمرہ عدالت میں موجود تھے جب کہ اس موقع پر عدالت عظمیٰ کے اطراف سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے۔

جے آئی ٹی رپورٹ جمع ہونے کے بعد 17 جولائی سے جاری کیس کی سماعت میں اب تک تحریک انصاف، جماعت اسلامی کے وکیل، شیخ رشید، وزیراعظم اور اسحاق ڈار کے وکیل اپنے دلائل مکمل کرچکے ہیں۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے حکم پر 20 اپریل کو شریف خاندان کی منی ٹریل کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دی گئی تھی جسے 60 روز میں اپنی تحقیقات مکمل کرنے کا حکم دیا گیا۔

مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے گزشتہ ہفتے 10 جولائی کو دس جلدوں پر  مشتمل اپنی رپورٹ عدالت عظمیٰ میں جمع کروائی جس کے مطابق شریف خاندان کے معلوم ذرائع آمدن اور طرز زندگی میں تضاد ہے۔ 

مزید خبریں :