06 ستمبر ، 2017
کراچی: قانون نافذ کرنے والے اداروں نے خواجہ اظہار پر حملے میں ہلاک دہشت گرد اور مفرور ہونے والے مبینہ ماسٹر مائنڈ عبدالکریم کے اہلخانہ کے بیانات ریکارڈ کرلیے۔
ایم کیوایم پاکستان کے رہنما اور سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار الحسن پر عیدالاضحیٰ کے روز بفرزون میں قاتلانہ حملہ کیا گیا تھا جس میں ایک پولیس اہلکار شہید اور بچہ جاں بحق ہوا تھا جب کہ خواجہ اظہار حملے میں محفوظ رہے۔
پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے خواجہ اظہار پر حملے کی تحقیقات میں مصروف ہیں اور اس حوالے سے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کامیابی حاصل کرنے کا بھی دعویٰ کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں نے حملے میں ہلاک ہونے والے دہشت گرد حسان کے اہلخانہ کا بیان ریکارڈ کرلیا جس میں اہلخانہ نے بتایا کہ حسان کے رویئے میں پچھلے ایک سال سے تبدیلی آنا شروع ہوگئی تھی جب کہ حسان کے 2 یا 3 دوست کنیز فاطمہ سوسائٹی میں رہتے تھے اور وہ ان ہی کے ساتھ رہتا تھا۔
ذرائع نے بتایا کہ حسان کا ایک چچا پولیس افسر ہے اور اس سے بھی پوچھ گچھ جاری ہے۔ ذرائع کے مطابق حسان کے گھر سے انصار الشریعہ کے پمفلٹ کی تیاری میں استعمال ہونے والا لیپ ٹاپ بھی برآمد کرلیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق حملے کے بعد مفرور ہونے والے ملزم اور مبینہ ماسٹر مائنڈ عبدالکریم عرف سروش کے والد سجاد صدیقی نے اپنے بیان میں بتایا کہ ایک سال قبل پتاچلا کہ بیٹا اسلحہ رکھتا ہے، بیٹے کی حرکات و سکنات کئی ماہ سے مشکوک تھیں۔
سروش کے والد نے بتایا کہ بیٹا رات رات بھر جاگتا تھا اور میرے پوچھنے پر تسلی بخش جواب نہیں دیتا، وہ زیادہ تر گم سم رہتا تھا۔ سجاد صدیقی نے بیان دیا کہ پولیس نے چھاپا مارا تو سروش کو ہتھیار چلانے سے منع کیا تھا، اسے ہتھیار ڈالنے کے لیے کہا لیکن وہ نہیں مانا، اس نے کہا کہ پولیس کو جان سے ماردوں گا لیکن گرفتاری نہیں دوں گا۔
ذرائع کے مطابق ہلاک دہشت گرد حسان کے دوستوں سے بھی تفتیش جاری ہے جن میں نعمان، حسن اور سبحان سمیت 6 دوست زیر حراست ہیں جب کہ حراست میں لیے گئے افراد این ای ڈی یونیورسٹی کے طالب علم ہیں۔
واضح رہے کہ خواجہ اظہار پر حملے میں مارا جانے والا دہشت گرد حسان اسرار انجینئرنگ یونیورسٹی کا لیکچرار اور پی ایچ ڈی ہولڈر تھا جب کہ حملے کا مبینہ ماسٹر مائنڈ عبدالکریم سروش صدیقی بھی کراچی یونیورسٹی میں شعبہ اپلائڈ فزکس کا طالبعلم تھا جو اب تک مفرور ہے۔