01 اکتوبر ، 2017
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کی تبدیلی کے لیے جوڑ توڑ جاری ہے جب کہ نئے اپوزیشن لیڈر کے انتخاب کے لئے طریقہ کار کچھ یوں ہے۔
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کی تبدیلی کے لیے اپوزیشن ارکان کی اکثریت اپنے دستخطوں کے ساتھ نوٹس سیکریٹری قومی اسمبلی کو جمع کراتی ہے۔
ساتھ ہی دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ موجودہ اپوزیشن لیڈر حزب اختلاف کے ارکان کی اکثریت کی حمایت کھو چکے ہیں۔
قومی اسمبلی قواعد کے مطابق اسی نوٹس کے ساتھ نئے اپوزیشن لیڈر کی نامزدگی بھی کی جاتی ہے۔
اسپیکر اپوزیشن ارکان کے دستخطوں کی توثیق کے بعد یہ اطمینان بھی کرتے ہیں کہ اپوزیشن لیڈر اکثریت کی حمایت کھو چکے ہیں۔
اس کے بعد موجودہ اپوزیشن لیڈر کی برطرفی اور نامزد رکن کے بطور اپوزیشن لیڈر منتخب ہونے کااعلان کیا جاتا ہے۔
اس وقت قومی اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کے 32 ارکان ہیں ان میں سے عائشہ گلا لئی اور مسرت زیب سمیت 5 منحرف ارکان کی پی ٹی آئی کو حمایت ملنے کا امکان نظر نہیں آتا۔
ایم کیو ایم کے 24 ارکان ہیں جن میں سے سید آصف حسنین پی ایس پی کا حصہ بن چکے ہیں جب کہ سفیان یوسف بھی ساتھ چھوڑ چکے ہیں۔
جماعت اسلامی کے 4 ارکان ہیں تاہم ان کے لیے بھی سید خورشید شاہ کی مخالفت مشکل فیصلہ ہوگا۔
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید اور عوامی جمہوری اتحاد کے عثمان ترکئی کا ووٹ تحریک انصاف کی حمایت میں ہے۔
10 آزاد ارکان میں سے عامر ڈوگر تحریک انصاف میں شامل ہو چکے جب کہ جمشید دستی بھی حمایتی ہیں اور جماعت اسلامی کے 4 ووٹ بھی شامل کر لیے جائیں تو بھی پاکستان تحریک انصاف کے اپوزیشن لیڈر کے لیے نامزد امیدوار کو 57 ووٹ ملنے کا امکان ہے ۔
دوسری طرف پاکستان پیپلزپارٹی کے قومی اسمبلی میں 47 ارکان ہیں، موجودہ اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کو بظاہر پاکستان مسلم لیگ ق کے 2 ،عوامی نیشنل پارٹی کے 2، قومی وطن پارٹی کا ایک، بی این پی کا ایک،آل پاکستان مسلم لیگ کا ایک اور 8 آزاد ارکان کی حمایت حاصل ہے۔
یوں ان کے ووٹوں کی مجموعی تعداد 62 تک بنتی ہے۔
موجودہ صورتحال میں اپوزیشن لیڈر کے الیکشن میں کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے جس میں اہم کردار آزاد اور چھوٹی پارلیمانی جماعتوں کے ارکان ادا کر سکتے ہیں جو امیدوار ان کی حمایت حاصل کرلے گا اپوزیشن لیڈر کا سہرا اسی کے سر پر سج سکتا ہے۔