03 فروری ، 2012
کراچی… عدلیہ عوام کوفراہمی انصاف کی علامت ہے لیکن اس صورت میں عوام کاکیابنے گاجب خود عدلیہ کیساتھ انصاف نہ کیا جارہا ہو۔ سندھ ہائی کورٹ میں ججوں کی تعداد40 سے کم ہوتے ہوتے گیارہ تک پہنچ گئی ہے جبکہ زیر التوا مقدمات کی تعداد تیزی سے بڑھتے ہوئے 72 ہزارسے تجاوزکرچکی ہے۔ ججوں کی کمی کامسئلہ دیگرصوبوں میں بھی موجودہے لیکن سندھ ہائیکورٹ میں اسکی شدت غیرمعمولی ہے۔عدالتی امورمقررہ تعداد40کی بجائے11جج انجام دے رہے ہیں۔کہاجاتا ہے کہ اسی وجہ سے نئی جوڈیشیل پالیسی کے نفاذ کے باوجود مقدمات نمٹانے کی رفتار مایوس کن ہے۔الجہاد ٹرسٹ کیس کے مطابق جج کی خالی آسامی کو تیس دن میں پر کرنا ضروری ہے۔ ججوں کی کمی کی وجہ سے سندھ ہائیکورٹ میں ناصرف زیر التوا مقدمات کی تعداد میں اضافہ ہورہاہے بلکہ کئی اہم اور فوری نوعیت کے مقدمات کافیصلہ نہیں ہوسکاہے جبکہ چاردرجن سے زائدلاپتہ افرادکی بازیابی سے متعلق آئینی درخواستیں بھی ابتدائی سماعتوں کے مراحل سے آگے نہیں بڑھ سکی ہیں۔ ججوں کی کمی کی وجہ سے آج کل ایک ایک بنچ کے سامنے ڈھائی سو سے تین سوتک مقدمات سماعت کیلیئے پیش کیے جاتے ہیں۔ وکلاء کے مطابق عملی طورپرایک بنچ کیلیئے مقررہ وقت میں30سے زیادہ مقدمات سنناممکن نہیں ہوتا۔تاہم سابق جج جسٹس(ر) شفیع محمدی اِسے ججوں کی کم فعالیت کانتیجہ گردانتے ہیں۔ سندھ ہائیکورٹ میں بعض زیر التوا مقدمات ایسے بھی ہیں جن کی کئی کئی مہینوں سے سماعت کیلئے باری ہی نہیں آئی۔ وکلا کا کہنا ہے کہ صورتحال اس نہج تک پہنچ چکی ہے کہ نئے ججز آنے کے بعد بھی ان مقدمات کو نمٹانے میں کئی مہینے لگ سکتے ہیں۔