کراچی میں آلودہ پانی کیس : حکومت نے لوگوں کی زندگیاں خراب کر دی ہیں، چیف جسٹس


کراچی: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے شہر قائد میں آلودہ پانی کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس میں کہا ہےکہ  حکومت نے یہاں کے لوگوں کی زندگیاں خراب کردی ہیں ہمیں سندھ کی صورتحال پر افسوس ہے اور ہم اسے بدلنا چاہتے ہیں۔

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے شہر قائد میں صاف پانی کی عدم فراہمی اور نکاسی آب سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور سابق سٹی ناظم کراچی مصطفیٰ کمال بھی عدالت کے طلب کرنے پر پیش ہوئے۔

وزیراعلیٰ سندھ اور مصطفیٰ کمال عدالت میں پیش ہوتے ہوئے۔

درخواست گزار شہاب اوستو کی جانب سے کمرہ عدالت میں آلودہ پانی سے متعلق دستاویزی فلم بھی دکھائی گئی۔

اس موقع پر وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں، معزز عدالت مجھے کچھ کہنے کی اجازت دے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو پورا موقع دیں گے اور سنیں گے لیکن پہلے ویڈیو دیکھ لیں۔

دستاویزی فلم مکمل ہونے کے بعد چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سندھ میں انسانی فضلہ دانستہ طور پر پینے کے پانی میں شامل کیا جارہا ہے، وزیراعلیٰ صاحب دستاویزی فلم دیکھ کر احساس ہوتا ہے، کیا آپ کو نہیں ہوتا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس زمین پر سب سے بڑی نعمت ہی پانی ہے اور مراد علی شاہ صاحب ہم لوگوں کو صاف پانی بھی مہیا نہیں کر رہے، اس کیس کو مخاصمانہ نہ لیجئےگا، ہم نے بڑے عزت و وقار اور احترام سے آپ کو بلایا ہے۔

عدالت کو کارروائی پر مجبور نہ کیا جائے، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ حکومت نے یہاں کے لوگوں کی زندگیاں خراب کر دی ہیں، ہمیں آپ لوگوں کے خلاف کاروائی کرنے پر مجبور نہ کیا جائے، آپ وفاق کے بغیر اس معاملہ کو حل نہیں کر سکتے تو بتائیں ہم آپ کی مدد کرتے ہیں۔

جسٹس میاں ثاقب نثار نے وزیراعلیٰ سندھ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ جہاں کہیں وہاں جا کر اس پانی کی ایک ایک بوتل پی لیتے ہیں، اگر آپ کہیں تو میں اور آپ بھی مٹھی جا کر نہر سے ایک گلاس پانی پئیں۔

چیف جسٹس نے وزیراعلیٰ سندھ سے کہا کہ ہم اور آپ مل کر اس مسئلے کا حل تلاش کرتے ہیں اور اگر ہماری مدد کی ضرورت ہے تو ہم سے مدد لیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم آپ کے اختیارات میں مداخلت نہیں کریں گے لیکن وزیراعلیٰ ہو یا وزیراعظم، آئین کے خلاف کسی کو کام نہیں کرنے دیں گے، ہر ہفتے کراچی آنا پڑے اور آپ کو بلانا پڑے تو بلائیں گے -

بلاول بھی دیکھیں لوگ کونسا پانی پی رہے ہیں

چیف جسٹس آف پاکستان نے وزیراعلیٰ سندھ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری میرے بچوں کی طرح ہیں اور وہ دیکھیں کہ لاڑکانہ اور دیگر شہروں کے لوگ کون سا پانی پی رہے ہیں، خواہش تھی کہ بلاول بھی یہاں ہوتے اور صورتحال دیکھتے اور انہیں بھی معلوم ہوتا کہ لاڑکانہ کی کیا صورتحال ہے۔

اس موقع پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ آپ کو مسائل حل کرنے کے لئے لوگوں نے منتخب کیا، انتظامیہ کی ناکامی کے بعد لوگ عدالتوں کا رخ کرتے ہیں، پیپلز پارٹی کی پچھلی حکومت میں کوئی معاملہ عدالت تک نہیں آیا۔

صورتحال اتنی سنگین نہیں، وزیراعلیٰ سندھ

کمرہ عدالت میں روسٹرم پر موجود وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ جو ویڈیو عدالت میں دکھائی گئی وہ درخواست گزار کی بنائی ہوئی ہے، صورتحال اتنی سنگین نہیں،  موقع ملا تو بہت جلد سپریم کورٹ میں اپنی ویڈیو پیش کروں گا۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ شاہ صاحب آپ اس ویڈیو کو چھوڑیں مگر کمیشن کی رپورٹ ہی دیکھ لیں اور اس کی سنگینی کا جائزہ لیں، کمیشن کی رپورٹ مسئلے کے حل تک پہنچنے کا ذریعہ ہے اور رپورٹ میں جو نشاندہی کی گئی ہے اس سے مدد لیں۔

خیال رہے کہ سندھ میں پینے کے پانی کے معیار سے متعلق ہائی کورٹ میں جمع کرائی گئی فراہمی نکاسی آب کمیشن کی ٹاسک فورس کی رپورٹ میں سندھ کے 14 اضلاع میں 83 فیصد پانی کے نمونوں کو انسانی جانوں کے لیے خطرناک قرار دیا گیا تھا جب کہ پانی میں انسانی فضلہ پائے جانے کا بھی انکشاف ہوا تھا۔


وزیراعلیٰ سندھ نے عدالت کو بتایا کہ 6 ماہ میں یہ کام نہیں ہوسکتا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ مہلت مانگیں گے تو وقت بڑھا دیں گے، آپ حل بتا دیں، ایک ہفتہ، دس دن یا کب تک یہ مسائل حل ہوں گے، ہمیں بھی جواب دینا ہے اور یہ ہماری ذمہ داری ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے چیف جسٹس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے شہر لاہور میں 100 فیصد اور شیخوپورہ میں 73 فیصد پانی آرسینک ہے جب کہ سرگودھا میں 88 اور کوئٹہ میں 60 فیصد پانی گندا ہے۔ 

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ لگ رہا ہے آپ ہمیں سنگل آؤٹ کر رہے ہیں، امتیازی سلوک کا گلہ دیگر صوبوں کو کرنا چاہیے کیوں کہ ہم اُن کے بجائے آپ کی رہنمائی کر رہے ہیں اور ہم نے یہ سلسلہ کہیں سے تو شروع کرنا تھا۔ 

شاہ صاحب کراچی والوں کی ٹینکرز سے تو جان چھڑا دیں

چیف جسٹس نے وزیراعلیٰ سندھ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا شاہ صاحب کراچی کے شہریوں کی ٹینکرز سے جان چھڑوا دیں، جو پانی 120 روپےمیں خریدا جاتا ہے، کیا وہ منرل واٹر ہوتا بھی ہے؟

وزیراعلیٰ سندھ سے مکالمے کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ شاہ صاحب، اللہ کرے لوگ آپ کو بار بار منتخب کریں لیکن آپ کی کچھ ذمے داریاں بھی ہیں، ہم ان چکروں میں نہیں پڑنا چاہتے، ہم اپنی اگلی نسل کے لیے کیا چھوڑ کر جا رہے ہیں، یہ ہمارے بچوں کے مستقبل کا سوال ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سال میں دریائے سندھ میں کتنا پانی سمندر میں جاتا ہے جس پر وزیراعلیٰ سندھ نے بتایا کہ جب سیلاب آتا ہے تو ہم سوچتے ہیں اور جب پانی کم ہوتا ہے تو ہم سوچتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا آپ سیلابی پانی کو کراچی کے لوگوں کی ضروریات کے لئے کیوں استعمال نہیں کرتے جس پر وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ دریائی پانی کم ہونے کے باعث سمندر بڑھتا جارہا ہے جس کے باعث بدین اور ٹھٹھہ تباہ ہورہے ہیں۔

سابق سٹی ناظم مصطفیٰ  کی پیشی

وزیراعلیٰ سندھ کے بعد کراچی کے سابق سٹی ناظم مصطفیٰ کمال روسٹرم پر آئے اور عدالت کو بتایا کہ پانی کی فراہمی اور سیوریج مسائل کا حل وزیراعلیٰ کا نہیں بلکہ مقامی حکومتوں کا کام ہے۔

مصطفیٰ کمال نے کہا کہ ہمارے دور حکومت میں 'کے تھری' اور 'فور' منصوبے متعارف کرائے گئے، کراچی کو روزانہ 1250 ملین گیلن پانی کی ضرورت ہے جب کہ کراچی کو سندھ کے حصے کا 1.51 فیصد پانی دیا جارہا ہے۔ 

مصطفیٰ کمال نے کہا کہ کراچی شہر کی آبادی ڈھائی کروڑ سے زیادہ ہے اور 2020 تک آبادی 3 کروڑ سے تجاوز کر جائے گی پھر 'کے فور' منصوبہ بھی پانی کی کمی کو پورا نہیں کر پائے گا۔

سپریم کورٹ نے وزیراعلیٰ سندھ سے کراچی میں صاف پانی کی فراہمی کے مسائل سے متعلق مفصل رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت 23 دسمبر تک کے لئے ملتوی کردی جب کہ عدالت نے سیکرٹری بلدیات سے بھی جواب طلب کرلیا۔

عدالت نے محمود آباد ٹریٹمنٹ پلانٹ کی اراضی کی منتقلی پر وزیراعلیٰ سندھ کو تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ بتایا جائے کہ اراضی کتنی تھی اور کتنی غیرقانونی الاٹمنٹ کی گئی اور اس کا ذمہ دار کون ہے۔ 

سندھ میں فراہمی آب: ٹاسک فورس کی مفصل رپورٹ

سندھ ہائی کورٹ میں جمع کرائی جانے والی رپورٹ کے مطابق سندھ کے 14 اضلاع میں 83 فیصد پانی کے نمونے انسانی جانوں کے لیے خطرناک حد تک مضر ہیں جب کہ کراچی میں 90 فیصد پانی کے نمونے پینے کے لیے نقصان دہ ہونے کا انکشاف ہوا۔

رپورٹ کے مطابق کراچی کے پانی کے 33 فیصد نمونوں میں انسانی فضلہ پایا گیا جب کہ ٹھٹھہ میں 75 فیصد پانی کےنمونوں میں انسانی فضلہ ملا جو کہ صوبے بھر میں سب سے زیادہ مقدار ہے اور سب سے کم انسانی فضلے کے نمونے تھرپارکر کے پانی میں پائے گئے۔

رپورٹ میں میرپورخاص میں 28 فیصد، ٹنڈوالہ یار 23، بدین 33، جامشورو 36، ٹنڈو محمد خان 30 ، لاڑکانہ 60 اور حیدرآباد میں 42 فیصد پانی کے نمونوں میں انسانی فضلہ پائے جانے کا انکشاف کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صوبے بھر میں اسپتالوں میں فراہم کیے جانے والا پانی بھی انتہائی مضر صحت ہے۔ رپورٹ کے مطابق سندھ کے 14 اضلاع کے 71 اسپتالوں میں بھی پانی کے نمونے ٹیسٹ کیے گئے اور اسپتالوں کو فراہم کردہ 88 فیصد پانی کے نمونے مضر صحت نکلے جب کہ ان حاصل نمونوں میں سے 33 فیصد نمونوں میں سیوریج کا پانی شامل ہے۔

مزید خبریں :