15 جولائی ، 2017
کراچی و حیدر آباد سمیت سندھ کے 14 اضلاع میں پینے کے صاف پانی میں انسانی فضلہ پائے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔
سندھ میں پینے کے پانی کے معیار سے متعلق فراہمی نکاسی آب کمیشن کی ٹاسک فورس کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ میں رپورٹ جمع کرائی گئی جس میں سنگین انکشافات سامنے آئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق سندھ کے 14 اضلاع میں 83 فیصد پانی کے نمونے انسانی جانوں کے لیے خطرناک حد تک مضر ہیں۔
جب کہ کراچی میں 90 فیصد پانی کے نمونے پینے کے لیے نقصان دہ ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
رپورٹ کے مطابق کراچی کے پانی کے 33 فیصد نمونوں میں انسانی فضلہ پایا گیا جب کہ ٹھٹھہ میں 75 فیصد پانی کےنمونوں میں انسانی فضلہ ملا جو کہ صوبے بھر میں سب سے زیادہ مقدار ہے اور سب سے کم انسانی فضلے کے نمونے تھرپارکر کے پانی میں پائے گئے ہیں۔
رپورٹ میں میرپورخاص میں 28 فیصد، ٹنڈوالہ یار 23، بدین 33، جامشورو 36، ٹنڈو محمد خان 30 ، لاڑکانہ 60 اور حیدر آباد میں 42 فیصد پانی کے نمونوں میں انسانی فضلہ پائے جانے کا انکشاف کیا گیا ہے۔
جب کہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صوبے بھر میں اسپتالوں میں فراہم کیے جانے والا پانی بھی انتہائی مضر صحت ہے۔
رپورٹ کے مطابق سندھ کے 14 اضلاع کے 71 اسپتالوں میں بھی پانی کے نمونے ٹیسٹ کیے گئے اور اسپتالوں کو فراہم کردہ 88 فیصد پانی کے نمونے مضر صحت نکلے جب کہ ان حاصل نمونوں میں سے 33 فیصد نمونوں میں سیوریج کا پانی شامل ہے۔
نمائندہ جیو نیوز کے مطابق واٹر بورڈ حکام نے بتایا کہ پانی میں کلورین ملایا جاتا ہے اور ایک ماہ میں ایک کروڑ سے زائد مالیت کی کلورین استعمال کی جاتی ہے لیکن شہر سے حاصل کیے گئے پانی کے نمونوں میں کلورین شامل ہی نہیں ہے اور 40 فیصد آبادی کو ٹینکرز کے ذریعے سپلائی ہونے والے پانی میں بھی کلورین نہیں ہوتا۔
دوسری جانب اس معاملے پر جیونیوز سے بات کرتے ہوئے وزیر بلدیات سندھ جام خان شورو کا کہنا تھا کہ بجٹ میں کراچی و حیدرآباد میں فلٹر پلانٹس کے لیے رقم مختص کی گئی ہے اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرنے کے فوری اقدامات کیے جائیں گے جب کہ دونوں شہروں میں فلٹر پلانٹس کی اپ گریڈیشن بھی رواں سال کی جائے گی۔