29 دسمبر ، 2017
دبئی: سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے دعویٰ کیا ہے کہ نیب نے ان کے خلاف بوگس مقدمات قائم کیے ہیں، انہیں انتقامی مہم کانشانہ بنایا جارہا ہے اور اگر کرپشن یا اقربا پروری کا کوئی الزام ثابت ہوجائے تو وہ ہر سزا بھگتنے کوتیار ہیں۔
دی نیوز کو دیئے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ 'نواز شریف کے خلاف انتقامی مہم میں انہیں نشانہ بنایا جارہا ہے، پاناما انکوائری میں ان کا نام شامل نہیں تھا، نام جے آئی ٹی کی تشکیل کے بعد سامنے آیا اور اس کے بعد ریفرنس دائرکیا گیا، ایسا انہیں نشانہ بنانے کے لیے کیا گیا'۔
اسحاق ڈار نے کہا، 'جسٹس جمالی نے کہا تھا کہ پاناما تحقیقات 4 ایون فیلڈ اپارٹمنٹ تک محدود رہے گی اور اس سے آگے نہیں بڑھاجائے گا لیکن کیس شروع ہونے کے بعد ایون فیلڈ اپارٹمنٹس تک محدود نہیں رہا اور نئے ایشوز پیدا کردیے گئے'۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ 'ایک دن سچ کھل کر سامنے آجائے گا اور مجھے مقدمات میں ملوث کرنے والے اور ان کے عزائم بے نقاب ہوجائیں گے اور پاکستان کے عوام کو حقائق کا علم ہوجائے گا'۔
اسحاق ڈار نے دعویٰ کیا کہ 'اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے میں نے اپنی پوری زندگی ہمیشہ بے لوث طریقے سے پاکستان کے لیے کام کیا ہے اور پاکستان کو اس کے نتائج ملے ہیں'۔
انھوں نے کہا کہ 'میں دعویٰ کرتا ہوں کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے 4 ادوار میں مختلف حیثیتوں سے خدمات کی انجام دہی کے دوران کوئی ایک پیسے کی کرپشن یا بے قاعدگی ثابت کردے، اگر کبھی بھی کرپشن، اقربا پروری یا کسی کی بے جا حمایت کرنے کا کوئی بھی الزام ثابت ہوجائے تو میں ہر سزا بھگتنے کو تیار ہوں'۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ '2013 میں، جب میں نے پاکستان کی وزارت خزانہ کی ذمہ داریاں سنبھالیں تو دنیا پاکستان کو دیوالیہ کے قریب قرار دے رہی تھی اور ملک کی معاشی حالت ابتر تھی، میں نے 2013 میں صبح 10 بجے سے رات کو 4، 4 بجے تک کام کیا، اس دوران مجھے دل کا عارضہ لاحق ہوا اور میرے دل میں اسٹنٹ ڈالا گیا'۔
انہوں نے کہا کہ 'ہم نے پاکستان کی معیشت کوسنبھالا دینے کے لیے دن رات کیا اور اللہ کے فضل وکرم سے کامیاب رہے، 4 سال کے اندر پاکستان کو جی 20کا رکن بننے کا اہل قرار دیا جانے لگا اور جون 2017 تک یہی صورت حال تھی'۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ 'گزشتہ ایک سال کے دوران جو صورتحال سامنے آئی ہے اس سے ایسا معلوم ہونے لگا ہےکہ ہم پاکستانی ہی پاکستان کے بدترین دشمن ہیں اور پاکستان کی ترقی اور استحکام نہیں چاہتے'۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ 'میرا ضمیر صاف اور مطمئن ہے، میرے ضمیر پر کوئی بوجھ نہیں ہے کیونکہ میں نے اپنا کردار بخوبی ادا کیا ہے اور دنیا اس حقیقت کو تسلیم کرتی ہے، اگر کچھ لوگ میری کارکردگی پر تنقید کرتے ہیں تو ٹھیک ہے لیکن یہ رجحان پاکستان کے لیے درست نہیں ہے'۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ میاں نواز شریف نے سپریم کورٹ کا فیصلہ مکمل طور پر قبول کیا اور نئے وزیراعظم کا انتخاب کیا گیا۔
جب ان سے عمران خان اور دیگر افراد کی نا اہلی کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کا پوچھا گیا تو اسحاق ڈار نے کہا کہ میاں نواز شریف اور ان کیسز کے درمیان کئی تضادات پائے جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا، 'ان کیسز کے ساتھ کیا جانے والا برتاؤ بہت مختلف ہے۔ ماہرینِ قانون نے دونوں معاملات میں تقابل کیا ہے اور انہیں بھی ان فیصلوں میں تضادات ملے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک ہی معاملے پر دوسرے مدعا علیہ کا کیس اور اس کی زرعی زمین کے متعلق حصے کے حوالے سے عدالت کا کہنا ہے کہ یہ ایف بی آر کا معاملہ ہے۔ انسائیڈر ٹریڈنگ کے حوالے سے عدالت کا کہنا ہے کہ یہ سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کا معاملہ ہے کیوں کہ مدعا علیہ نے یہ بات قبول کرکے رقم ایس ای سی پی کو دی اور عدالت کا اس معاملے میں کچھ لینا دینا نہیں'۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ 'میرے کیس میں میرے 34 سال کے ٹیکس ریٹرنز ایف بی آر کے پاس ہیں، میرے ٹیکس ریٹرنز کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں لیکن اس معاملے میں مختلف پیمانہ اختیار کیا جا رہا ہے'۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ وہ پاکستان آکر نیب عدالت کے سامنے جھوٹے کیس کا سامنا کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کے ڈاکٹر نے ان پر زور دیا ہے کہ علاج مکمل ہونے تک سفر نہ کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ 'لندن میں نومبر 2017 کو ڈاکٹروں نے مجھے ہدایات کی تھیں کہ سفر نہیں کرنا چاہیے، میں جتنا جلد ہوا پاکستان واپس آؤں گا اور ڈاکٹر کی اجازت سے فضائی سفر کروں گا'۔
انہوں نے کہا کہ نیب کا پہلے بھی عدالت میں ریکارڈ ٹیمپرنگ کا ایک ڈھونگ سامنے آیا ہے۔آخر میں انہوں نے مزید بتایا کہ 'وہ نیب کے اس اقدام سے شدید رنجیدہ ہیں جس میں نیب نے ان کے دو خیراتی اداروں (ہجویری ٹرسٹ اور ہجویری فاؤنڈیشن) کے اکاؤنٹس منجمد کیے ہیں، ہجویری ٹرسٹ لاوارث بچوں کے لیے 'سایہ' نام سے ہے جس میں 93 لاوارث بچے رہتے ہیں اور انہیں وہاں تعلیم سمیت سب کچھ فراہم کیا جاتا ہے۔ان بچوں میں سے کچھ امریکہ اور ترکی گئے جبکہ ایک اب چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بن رہا ہے'۔
'دوسری طرف ہجویری فاؤنڈیشن ضرورت مندوں کے لیے شادیوں، طبی سہولتوں، غریبوں کے لیے تعلیم کی سہولیات اور مختلف اسپتالوں میں خوراک کی تقسیم جبکہ ہزاروں ضرورت مندوں کے لیے رمضان راشن پیکج کی تقسیم کا انتظام کرتا ہے۔نیب نے اس پر سیکشن 23 کا اطلاق کیا اور ہم اب ان دو اداروں کے اکاؤنٹس نہیں چلا سکتے'۔
اسحاق ڈار کا کہنا تھا، 'اگر آپ مجھے پسند نہیں کرتے تو ٹھیک ہے لیکن یہ دو ادارے چلنے دیں لیکن نیب کی کارروائی سے ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ لوگ انتقام لے رہے ہیں، یہ قابل مذمت اور بڑی بدقسمتی کی بات ہے لیکن میرا خدا سب کچھ دیکھ رہا ہے'۔